پنج شنبه 01/می/2025

القدس کے حوالے سےامریکا کے ہاتھوں ویٹو ہونے والی قراردادیں

جمعرات 21-دسمبر-2017

گذشتہ سوموارکے روز 18 دسمبرمصر کی جانب سے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد میں بیت المقدس کے دینی، اسلامی، عرب اور فلسطینی تشخص برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔ گوکہ اس قرارداد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں، ورنہ اقوام متحدہ کے دستور کے مطابق تنازع کا فریق ہونے کی حیثیت سے امریکا رائے شماری میں حصہ نہ لے سکتا اور قرارداد منظور ہوجاتی۔

یہ قرارداد امریکا نے اسرائیل کے حق میں ویٹو کردی۔ سوموار کے روز ویٹو کے بعد القدس، فلسطین اور عرب ممالک کے حوالے سے ’ویٹو‘ کی گئی امریکی قراردادوں کی تعداد 43 ہوگئی۔ مجموعی طورپرالقدس کے حوالے سے سلامتی کونسل میں 80 قراردادیں منظور کی گئیں۔

’ویٹو‘ کے استعمال کا حق سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے پاس ہے۔ ویٹو کا حق رکھنے والے ممالک سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد کو وجہ بتائے بغیر ویٹو کرسکتا ہے۔

اگرچہ امریکا القدس کے حوالے سے قراردادیں ویٹو کرنے کے باوجود عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ امریکا نے کئی مواقع پر فلسطین میں املاک اور اراضی پر اسرائیلی قبضے کی مخالفت اور مذمت کی۔ تاہم مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس بالخصوص القدس کو اسرائیلی دارالحکومت  قرار دینے سے روکنے کے لیے پیش کی گئی پانچ قراردادوں کو اسرائیل نے ویٹو بنایا۔

حالیہ قرارداد کے بعد القدس کے حوالے سے امریکا کی ویٹو کی گئی قراردادوں کی تعداد چھ ہوگئی ہے۔

سنہ 1980ء میں سلامتی کونسل نے قرارداد 478  منظور کی جس میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ القدس میں اپنے سفارتی مشن ختم کریں کیونکہ بیت المقدس فلسطینیوں اور اسرائیل کےدرمیان متنازع علاقہ ہے۔

حالیہ قرارداد مصر کی طرف سے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی۔ اس قرارداد میں القدس کے اسلامی اور عرب تشخص کو برقرار رکھنے کا مطالبہ تو کیا گیا مگر چھ دسمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’اعلان القدس‘ کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔

بیت المقدس اقوام متحدہ کے فورم پر 29 نومبر 1947ء کو اس وقت پیش کیاگیا جب جنرل اسمبلی نے تقسیم فلسطین کی قرارداد 181 منظور کی۔ اس قرارداد میں بیت المقدس کے مذہبی مقامات کے ہرممکن تحفظ کا یقین دلایا گیا۔

سنہ 1948ء کی نکبہ کے بعد اسرائیل نے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو پامال کرنا شروع کیا۔ گوکہ سلامتی کونسل کی طرف سے بیت المقدس اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کے خلاف کئی قراردادیں منظور کی گئیں مگر یہ سب قراردادیں نقش برآب ثابت ہوئیں۔

سنہ 1948ء کے بعد آج تک سلامتی کونسل نے القدس کے حوالے سے درجنوں قراردادیں منظور کی مگر ان  پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ذیل میں ان  چھ  قراردادوں کا احوال بیان کیا جا رہا ہے جو سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں مگرامریکا نے انہیں اسرائیل کے حق میں ’ویٹو‘ کردیا۔

25 مارچ 1976ء

پچیس مارچ1976ء کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد  میں اسرائیل سے مقامات مقدسہ کے تحفظ کا مطالبہ گیا مگر امریکا نے یہ قرارداد اسرائیل کے حق میں ویٹو کردی۔

20 اپریل 1982ء

بیس اپریل سنہ 1982ء کو سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد میں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی مگر امریکا بہادر نے یہ قرارداد بھی ویٹو کردی۔

30 جنوری 1986ء

تیس جنوری 1986ء کو مسجد اقصٰی کی بے حرمتی اورالقدس کواسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قراردینے کے کنیسٹ کے خلاف قرارداد پیش کی گئی مگر امریکا نے یہ قرارداد بھی ویٹو کردی۔

17 مارچ 1995ء

سترہ مارچ 1995ء کو سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کی اراضی اور املاک غصب کرنے چھوڑ دے۔

18 مارچ 2011ء

اٹھارہ مارچ 2011ء کوسلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد میں 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقون میں اسرائیلی کارروائیوں اور یہودی آباد کاری کی مذمت کی گئی۔ امریکا نے حسب معمول یہ قرارداد بھی ویٹو کردی۔

18 دسمبر 2017ء

یہ قرارداد حال ہی میں سلامتی کونسل میں مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی مگر امریکا نے پہلے ہی اس قرارداد کو ویٹو کرنے کا تہیہ کررکھا تھا۔ 14  ملکوں نے اس قرارداد کی حمایت کی مگر امریکا نے اس قرارداد کو ماضی کی مکروہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ویٹو کردیا۔

مختصر لنک:

کاپی