اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے نائب صدر صالح العاروری نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی اداروں کے ذریعے غرب اردن میں مزاحمت کاروں پر پابندیاں عاید کرکے علاقے میں صہیونی ریاست کو اپنے خونی پجنے گاڑھنے کا موقع دیا گیا۔
قطر سے نشریات پیش کرنےوالے’الجزیرہ‘ ٹی وی کو دیے گئےانٹرویو میں العاروری نے کہا کہ اسرائیل کی حکمراں جماعت ‘لیکوڈ‘ کا غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس سے کم خطرناک نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غرب اردن کے اسرائیل میں الحاق کا فیصلہ ٹرمپ کے اعلان کے اثرات ہیں۔ ٹرمپ نے اعلان کے بعد اسعرائیل کو غب اردن اور بیت المقدس میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے لیے بے لگام چھوڑ دیا گیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے اسرائیل کی حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ نے القدس کو یکجا کرنے کی منظوری دینے کے بعد غرب اردن کو بھی اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں صالح العاروری نے کہا کہ فلسطینی قوم اور حماس ٹرمپ کے اعلان القدس کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔
حماس رہ نما نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد غرب اردن اور القدس میں صہیونی ریاست کو یہودی آباد کاری کے لیے بے لگام چھوڑ دیا گیا۔ امریکا اور اسرائیل دونوں مل کر عالمی قانون کے تحت قضیہ فلسطین کے حل کی تمام کوششیں اور راستے بند کررہے ہیں۔
العاروری نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس پر عالمی رد کو مستحسن قرار دیا اور کہا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر القدس کے حوالے سے سامنے آنے والا موقف قابل قدر ہے اور اس کے مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔
حماس رہ نما نے کہا کہ ان کی جماعت قومی مفاہمت اور اسرائیل کے ساتھ مسلح مزاحمت ایک ساتھ جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں پر پابندیاں عاید کرکےاسرائیل کو اپنے پنجے گاڑنے اور توسیع پسندی کا نیا موقع فراہم کیا گیا۔