فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی کنیسٹ میں فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دیے جانے کے ظالمانہ قانون کی منظوری کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کی تین بڑی تنظیموں نے صہیونی کنیسٹ میں منظور ہونے والے اس قانون کو غیرانسانی قرار دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ مزاحمتی حملوں کے الزام میں گرفتار فلسطینیوں کو سزائے موت دی جائے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق جمعرات کو اسرائیلی کنیسٹ نے ایک مسودہ قانون پر اتبدائی رائے شماری کی تھی جس میں فلسطینی مزاحمت کاروں کو سزائے موت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ مسودی کی حمایت میں 52 اور مخالفت میں 49 ارکان نے ووٹ ڈالا۔
فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں’الضمیر فاؤنڈیشن‘ تھارٹی برائے حقوق اسیران اور مرکر حریات کی طرف سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کا اسرائیلی قانون کسی صورت میں قابل قبول نہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل قدم بہ قدم فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسندانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور نسل پرستانہ قوانین کی منظوری کے ذریعے فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کا استحصال کر رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کو سزائے موت دینے کا قانون منظور کرنا قابضانہ فوج داری قانون بحال کرنے کے مترادف ہے۔ یہ قانون سنہ 1950ء میں منظور ہونے والے نازیوں اور ان کے معاونین کے محاسبے کے اس ظالمانہ قانون کا حصہ ہے جس کا اطلاق فلسطینی قوم کے ساتھ کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت کا اسرائیلی قانون اسرائیل کے فوجی احکامات میں پہلے بھی موجود رہا ہے مگر اس کے لیے کسی فوجی عدالت کے تینج ججوں کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ آج تک اسرائیل کی کسی فوجی عدالت نے اس قانون کا استعمال نہیں کیا ہے۔ تاہم صہیونی ریاست ماورائے عدالت فلسطینیوں کے مجرمانہ قتل جیسے جرائم میں ملوث رہی ہے۔