چهارشنبه 30/آوریل/2025

ٹرمپ کے اعلان القدس کے بعد صہیونیوں کی فلسطینی نظام تعلیم پریلغار!

اتوار 14-جنوری-2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد جہاں القدس کو یہودیانے اور وہاں پر آباد کاری کے اسرائیلی حربوں میں اضافہ ہوا ہے وہیں القدس کی فلسطینی کالونیوں میں شعبہ تعلیم بھی صہیونیوں کی جانب سے سنگین خطرات کا سامنا کررہا۔

فلسطینی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کے حوالے کرنا بیت المقدس میں رہائش پذیر فلسطینیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنے کے مترادف ہے۔

بیت المقدس میں مدارس بورڈ کے چیئرمین اور قبلہ اول کے امام وخطیب الشیک عکرمہ صبری نے بتایا کہ صہیونی ریاست نام نہاد اقدامات کے ذریعے القدس میں نیا ’تعلیمی بم‘ گرانے کی تیاری کررہی ہے۔ صہیونی ریاست کی طرف سےالقدس کے تمام فلسطینی اسکولوں میں اسرائیل کا تیار کردہ نصاب اور تدریسی نظام مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے القدس کویہودیا نے اور وہاں پرنصاب تعلیم پر یلغار کرنے  کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اسرائیلی بلدیہ اور دیگر حکومتی ادارے ایک طویل عرصے سے بیت المقدس کے فلسطینی اسکولوں پر اسرائیل کا وضع کردہ تدریسی نصاب مسلط کرنے کی سازشیں کرتے چلے آرہےہیں۔

اگرچہ اس سے قبل فلسطینی شہری اسرائیلی ریاست کے نصاب اور نظام تعلیم کی مختلف طریقوں سے مزاحمت کرتے رہے ہیں مگر امریکی صدر کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکوموت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد فلسطینیوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

الشیخ عکرمہ صبری نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سےبات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ہماری ثقافت پرحملے کا کوئی حق نہیں۔ فلسطینیوں من پسند نصاب تعلیم مسلط کرنا فلسطین پرنئی ثقافت کی یلغار کرنے کے مترادف ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یورپی ملکوں میں بسنے والے یہودیوں کو مخصوص تدریسی نصاب پڑھانے کی اجازت ہے۔ ہم فلسطین میں رہتے ہوئے اپنی مرضی اور قومی روایات وثقافت کے مطابق نصاب اپنانے اور اسے پڑھانے کاحق ہے۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ القدس میں فلسطینی اسکولوں کے نصاب تعلیم کو تبدیل کرنے کی سازشوں کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ امریکا بھی ہاتھ ہے۔ جس طرح امریکا القدس پر اپنے سیاسی اور نظریاتی ایجنڈا مسلط کرنے کی سازش کررہا ہے۔ اسی طررح القدس میں نصاب تعلیم اور فلسطینی نظام تعلیم کو بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکا دونوں مل کر یکے بعد دیگرے القدس پر ثقافتی یلغار مسلط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

الشیخ عکرمہ صبری نے القدس میں فلسطینی نصاب اور تعلیمی نظام میں امریکی مداخلت کومسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹرمپ کو اپنے جارحانہ عزائم القدس پر مسلط کرنے کی کسی صورت میں اجات نہیں دیں گے۔ امریکا اور اسرائیل کی فلسطینیوں کے مذہبی اور ثقافتی امور میں مداخلت گوارا نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل وہ اسرائیل کے فلسطینی اسکولوں میں اسرائیلی نصاب تعلیم کو حرام قرار دینے کا فتویٰ صادر کرچکے ہیں۔

القدس میں نصاب تعلیم پر امریکی صہیونی یلغار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تجزیہ نگار اور ماہر تعلیم سمیر جبریل نے کہا کہ صہیونی ریاست امریکا کی پشت پناہی کے تحت القدس کے اسکولوں پر اپنا نصاب قبول کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے۔ مستقبل میں اس دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل القدس کے بارے میں امریکی اعلان سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یوں القدس کو یہودیانے کی سازشیں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ ان سازشوں میں القدس کی ثقافت پر یلغار کے لیے ہمارے نصاب تعلیم کونشانہ بنایا گیا ہے۔

جبریل نے کہا کہ امریکا نے اسرائیل کو القدس کے حوالے سے کلین چٹ دے رکھی ہے اور صہیونی ریاست امریکی اشاروں پر ناچ رہی ہے۔

اسرائیل کی القدس پر ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کو متحد ہو کر صہیونی دشمن کی طرف سے تعلیم پرحملے کو روکنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل دھونس اور لالچ کے مجرمانوں حربوں کے ذریعے القدس کے فلسطینیوں اسکولوں کے مالکان کو بلیک میل کرسکتا ہے۔ امریکی ۔ صہیونی بلیک میلنگ کا مقابلہ جرات مندانہ موقف سے کیا جاسکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی