قابض صہیونی ریاست کی پوری سرکاری مشینری اور انتہا پسند یہودی تنظیمیں سب مل کر جہاں زندہ فلسطینی شہریوں کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہیں وہیں فوت ہونے والے فلسطینیوں کی آخری آرام گائیں اور ان کے جسد بھی غیرمحفوظ ہیں۔ آئے روز فلسطینی قبرستانوں کی توڑپھوڑ،میتوں کی بے حُرمتی اور قبرستانوں کو یہودیانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہود گردی کا تازہ شکار مقبوضہ فلسطین کے شہر ’یافا‘ میں موجود تاریخی قبرستان ’طاسو‘ہے۔ صہیونی انتہا پسند تنظیمیں ’طاسو‘ قبرستان کویہودیانےکےلیے دن رات سرگرم ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کی دو سرمایہ کارکمپنیوں نے فلسطینی مسلمانوں کو نوٹس بھیجا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ آئندہ ’طاسو‘ قبرستان میں اپنے مردوں کو دفن نہ کریں۔ اس کے علاوہ صہیونی کمپنیوں نے 15 ملین شیکل کی رقم قبرستان کو یہودیانے کے لیے مختص کی ہے۔
کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 44 سال پیشتر سنہ 1973ء وزارت خزانہ سے خرید کی تھی۔
ذمہ دار فلسطینی شہریوں نے صہیونی کمپنیوں کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ اسرائیلی کمپنیوں کا یہ دعویٰ من گھڑت ہے کہ انہوں نےطاسو قبرستان کی اراضی خرید کی تھی۔ یہ جگہ اسلامی اوقاف کا حصہ ہے۔
یافا کی دیہی کونسل کے سابق رکن احمد مشھراوی کا کہنا ہے کہ ’ہم اسرائیلی کمپنیوں کی طرف سے طاسو قبرستان پر ملکیت کے دعوے کا سن کر حیران رہے۔ یہودی سرمایہ کارکمپنیوں نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کی مرکزی عدالت میں ایک درخواست دی جس میں کہا گیا کہ عدالت فلسطینیوں کو یافا قبرستان میں اپنی میتوں کو دفن کرنے سے روک دے۔ اس پر یافا کے شہریوں نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس کمیٹی کے ذریعے طاسو قبرستان کے دفاع اور اسلامی اوقاف کی اراضی کو یہودیوں کو دینے کی سازشوں کی روک تھام کی جائے گی۔
مشھراوی کا کہنا ہے کہ صہیونی کمپنیاں یہ دعویٰ کررہ ہیں کہ انہوں نے طاسو قبرستان کے 40 دورنم رقبے کا سودا کر رکھا ہے۔ ان کمپنیوں کے بہ قول انہوں نے 1973ء سے 1977ء کے عرصے کےدوران قبرستان کی اراضی مختلف مراحل میں خرید کی تھی۔
خیال رہے کہ یافا میں ’طاسو‘ واحد قبرستان ہے جو مسلمانوں کےزیراستعمال ہے۔ اس کا کل رقبہ 80 دونم ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے مشہراوی نے کہا کہ قبرستان پرصہیونی قبضہ روکنے کے لیےعوامی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی عرب شہری طاسو قبرستان میں یہودی تجارتی مراکز کی تعمیر روکنے کے لیے ہرسطح پر کوششیں کررہے ہیں۔ صہیونی نہ صرف یافا کی عرب آبادی کا واحد قبرستان ان سے چھیننا چاہتے ہیں بلکہ شہر کی قدیم اور تاریخی بندرگاہ کو استعمال کرنے سے روکنے اور فلسطینی ماہی گیروں کو مچھلیوں کے شکار سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
صہیونی سازشیں اور اہداف
مقامی فلسطینی سماجی کارکن مشھراوی کا کہنا ہے کہ یافا کے مکین سمجھتے ہیں کہ صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیاں ان کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ان کے خلاف سازشیں کرتی ہیں۔صہیونیوں کا اصل ہدف قبرستان نہیں بلکہ مقامی عرب شہری ہیں جنہیں مختلف حیلوں اور حربوں کے ذریعے قبرستان سے محروم کرنے کے ساتھ دیگر بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
مشھراوی نے مزید کہا کہ مقامی عرب اور فلسطینی مسلمان طاسو قبرستان کی حرمت پامال ہونے سے روکنے کے لیے تمام اقدامات کررہے ہیں۔ اگر صہیونی قبرستان کے آدھے رقبے پرقبضہ کرتے ہیں تو اس کا صاف مطلب قبرستان کی ہزاروں تاریخی قبروں کے تقدس کو پامال کرنا ہوگا۔ ناپاک صہیونیوں کو قبرستان میں قبروں پر دست درازی کی اجازت نہیں دی جائےگی۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست طاسو قبرستان پر قبضے کی سازشوں کی ذمہ دار ہے جس نے خفیہ سازش کے تحت یہودی تجارتی کمپنیوں کو قبرستان کی زمین فروخت کی ہے۔
مقامی شہری اور پروفیسر احمد ناطور کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کی جانب سے طاسو قبرستان پر قبضے کی کوشش یہودیوں کی اخلاقی گراوٹ کی بدترین مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طاسو قبرستان کی بے حرمتی اور اس کی اراضی پرقبضہ القدس، فلسطین کے دیگر مقدسات پر قبضے کی سازشوں کا حصہ ہے۔
مستقل دفاعی کمیٹی
پروفیسر قاضی احمد ناطور نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں تمام مقدسات کے دفاع کے لیے ایک مستقل کمیٹی کے قیام کی ضرورت ہے جوصہیونی ریاست کی مقدس مقامات پرقبضے کے خلاف اور ان کے دفاع کے لیے موثر اقدامات کرسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ طاسو قبرستان یافا کا فلسطینیوں کا واحد قبرستان ہے۔ اسرائیل نے سازشوں کے تحت یافا کے دیگر تمام قبرستان بند کردیے اور پورےشہر میں فلسطینی آبادی کے پاس صرف یہ ایک قبرستان بچا ہے۔ اب یہ قبرستان بھی خطرے میں ہے۔
یافا کی شرعی کورٹ کے جج محمد رشید زبدہ کا کہنا ہے کہ طاسو اسلامی قبرستان قبضے اور خریدو فروخت کی سازشوں ک قبول نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل اسی طرح کی سازشوں سے شمالی یافا میں ’عبد النبی‘ قبرستان کو بھی فلسطینی آبادی سے چھینا گیا اور اس قبرستان میں دفن مسلمانوں کی ہڈیوں پر ’ھیلٹن‘ ہوٹل تعمیر کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک پبلک پارک، برطانوی سفارت خانے کے لیے ٹیکسی اسٹینڈ بنایا گیا۔ الجلیل میں مشرقی الجلیل قبرستان ، قبرستان الشیخ مونس۔ اور کئی دوسرے قبرستان فلسطینیوں سے چھین کر ان پر صہیونی ریاست نےانہیں اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کیا۔