فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت ’تحریک فتح‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور فلسطینیوں کی امداد بند کرنے سمیت دیگر انتقامی اقدامات کے خلاف کوئی مربوط اور ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق اتوار کو رام اللہ میں صدر محمود عباس کی زیرصدارت تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جامع مذاکرات کے لیے نیا عالمی میکنیزم مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
فلسطینی خبر رساں اداروں کے مطابق صدر عباس کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے القدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کے بعد فلسطین کی داخلی، علاقائی اور عالمی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں کہا گیا کہ 20 جنوری کو صدر محمود عباس سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس وقت ہماری تمام تر توجہ اس خطاب کو کامیاب بنانے پرمرکوز ہونی چاہیے۔
پی ایل او کاکہنا ہے کہ صدر محمود عباس کا سلامتی کونسل سے خطاب اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ فلسطینی عالمی قانون اور بین الاقوامی آئینی اداروں کے ساتھ مل کر تنازع فلسطین حل کرنے کا خواہاں ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی قوم عالمی قوانین اور بین الاقوامی قراردادوں کی روشنی میں بیت المقدس کو دارالحکومت بناتے ہوئے چار جون 1967ء کی حدود میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔
تنظیم آزادی فلسطین نے ایک بیان میں فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری تمام منصوبوں کو ختم کرتے ہوئے صہیونی ریاست سے سیکیورٹی، اقتصادی، سیاسی، سفارتی، اورانتظامی روابط ختم کردے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی پیرس میں اسرائیل کے ساتھ طے پائے اقتصادی سمجھوتے سے بھی باہر آجائے اور آزاد قومی معاشی پروگرام کی تشکیل پر توجہ مرکوز کرے۔