حال ہی میں فلسطینی تنظیم تحریک فتح کے ایک مرکزی رہ نما نے اسرائیل کے عبرانی ٹی وی ’ائی 24‘ کو ایک انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں تحریک فتح کے رہ نما احمد غنیم نے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کا دفاع کیا اور کہا کہ حماس فلسطینی قومی دھارے کا اہم ترین جزو ہے۔ کسی بھی قومی نوعیت کے معاملے میں حماس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک سوال کے جواب میں احمد غنیم نے کہا کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف حماس اور فتح سمیت تمام مزاحمتی تحریکات ایک صف میں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں احمد غنیم نے کہا کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کی وجہ سے تحریک فتح بعض مواقع میں فتح سے زیادہ عوام کے قریب ہے۔ بعض تاریخی مواقع پر تحریک فتح کی طرح حماس نے بھی صہیونی ریاست کو ہزیمت اور شکست سے دوچار کیا ہے۔
ہمیں فخر اور خوشی ہے کہ فلسطینی قوم میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی حماس جیسی تحریکیں موجود ہیں۔
تحریک فتح کے رہ نما کے حماس کو خراج تحسین پرمبنی موقف نے صہیونی ابلاغی اور سیاسی حلقوں میں جیسے آگ بھڑکا دی۔ اسرائیلی تجزیہ نگار گولان برھوم نے احمد غنیم پرحماس کے دفاع کا الزام عاید کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل ایسے فلسطینیوں کے ساتھ غرب اردن میں شراکت اور رابطے کے لیےکوشاں ہےجو حماس کی پالیسیوں کی تحسین کرتے ہیں۔
اسرائیل کو کیا خوف لاحق ہے؟
تحریک فتح کے مرکزی رہ نما احمد غنیم کی جانب سے حماس کی حمایت پر صہیونی ابلاغی اور سیاسی حلقوں میں بھونچال فطری بات ہے۔ صہیونی ریاست کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ تحریک فتح بھی حماس کی راہ پر چلتے ہوئے صہیونی ریاست کے خلاف محاذ آرائی کی پالیسی پرعمل پیرا ہونے والی ہے۔
عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی 14 کے مطابق تحریک فتح کے رہ نما نے اسرائیل مخالف حماس کی کارروائیوں کی ستائش کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ ان کی اپنی جماعت بھی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی راہ پر چلنے کی تیاری کررہی ہے۔
عبرانی ٹی وی کے مطابق ’ارئیل‘ میں ایک مزاحمتی کارروائی میں ملوث فلسطینیوں کے تعاقب اور حملہ آور احمد نصر جرار کی نابلس میں شہادت کے بعد تحریک فتح نے جس طرح اس واقعے کی مذمت کی ہے اس سے جماعت کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب غرب اردن میں فلسطینی مزاحمتی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے تو دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی تیاریاں شروع کی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے جوابی اقدام کے طورپر اسرائیل سے تعلقات تقریبا ختم کرلیے ہیں۔ اگرچہ دونوں فریقوں کےدرمیان سیکیورٹی تعاون بدستور جاری ہے مگر اعلانیہ روابط ختم ہوچکے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کے اعلانات اور تحریک فتح کی حماس کی طرف بڑھتی قربت سے اسرائیل پریشان ہے۔ اگر فلسطین کی یہ دونوں جماعتیں کسی تحریک انتفاضہ میں ایک فورم پر جمع ہوجاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو سنگین خطرات پیش آسکتے ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تحریک فتح کے رہ نما احمد غنیم نے حماس کے حوالے سے جو موقف ظاہر کیا ہے وہ مثالی ہے اور انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ اس پر اسرائیل کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی فطری ہے کیونکہ اسرائیل کو یہ توقع نہیں کہ کئی سال تک صہیونی ریاست کی ہاں میں ہاں ملانے والی تحریک فتح مزاحمت کاراستہ بھی اختیار کرسکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی نوجوان نسل چاہے اس کا تعلق کسی نا کسی شکل میں حماس کے ساتھ ہو یا تحریک فتح کے ساتھ ہو وہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت پر یقین رکھتی ہے۔ نوجوانوں میں اپنے حقوق کے لیے دشمن کے خلاف لڑ مرنے کا جذبہ موجود ہے اور اسرائیلی مظالم کی وجہ سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حماس کی حمایت پوری قوم کی آواز
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر کا کہنا ہے کہ تحریک فتح کے رہ نما احمد ابو غنیم نے حماس کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ پوری قوم کی آواز ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو عامر کا کہنا تھا کہ احمد غنیم کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست کےمظالم کے خلاف تمام فلسطینیوں کی قریب قریب سوچ ایک ہی جیسی ہے۔ نیلے، پیلے اور سرخ میں کوئی فرق نہیں۔ فلسطینیوں کی یہ اجتماعی سوچ مزاحمتی عمل اٹھان دینے کے لیے کرین کا کردار ادا کرسکتی ہے۔
خیال رہے کہ عبرانی ویب سائیٹ ’مانیٹر‘ نے سنہ 2017ء کے دوران اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ تحریک فتح بھی ’تشدد کی لہر‘ میں اسرائیل کے خلاف شامل ہوسکتی ہے۔
اسی تناظر میں اسرائیلی آرمی چیف جنرل گیڈی آئزن کوٹ نے غرب اردن میں مزید تین بریگیڈ اضافی فوج تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تحریک فتح کا تاریخی کردار
فلسطینی سیاسی امور کے ماہر صلاح الدین العوادہ کا کہنا ہے کہ تحریک فتح کی قیادت میں حماس کےحوالے سے ہمدردی رکھنے والوں کی کافی تعداد موجود ہے۔ تحریک فتح میں ’عرفاتیہ‘ کہلانے والے رہ نماؤں نے حماس کی قیادت سے متعدد بار ملاقاتیں کی ہیں۔
تحریک فتح کا یہ گروپ حماس کے ساتھ تعاون کے لیے زور دیتا رہا ہے۔ عرفاتیہ گروپ کے رہ نما حماس کے ساتھ مل کر قومی پروگرام تشکیل دینے کے پرزور حامی ہیں۔
العوادہ کا کہنا تھا کہ فتح ایک تاریخی جماعت ہے جس کا اپنا ایک قومی پروگرام ہے۔ یہ محض اقتدار سے فایدہ اٹھانے والا موقع پرست گروپ نہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے العوادہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو یہ خوف مسلسل لاحق رہتا ہے کہ تحریک فتح کسی بھی وقت مزاحمت کی طرف واپس جا سکتی ہے۔ فتح کے اسیر رہ نما مروان البرغوثی کو قید تنہائی میں ڈالنا اور ان جیسے لیڈروں کو قید وبند میں رکھنا اسرائیلی خوف کا واضح ثبوت ہے۔
تحریک فتح عمومی طورپر غرب اردن میں مزاحمتی منظرنامےسے غائب رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے نہ صرف مزاحمت کی مذمت کی جاتی رہی ہے بلکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینی مزاحمت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ فتح کی قیادت میں بھی اس حوالے سے اختلافات موجود رہےہیں۔