فن اور ثقافت کے شعبے کو فنڈ دینے والے مرکزی ادارے آرٹس کونسل انگلینڈ نے جنوری کے آخر میں نیشنل پورٹ فولیو آرگنائزیشنز (این پی اوز) کے لیے اپنے آفیشل ریلیشن شپ فریم ورک کو اپ ڈیٹ کیا ہے، جس میں سیاسی بیانات جاری کرنے کے خلاف انتباہ بھی شامل تھا۔
دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف تنظیموں بلکہ ان سے وابستہ افراد یعنی فنکاروں اور تخلیق کاروں کی بھی ممکنہ طور پر جانچ پڑتال کی جائے گی۔
آرٹس کونسل انگلینڈ نے تنظیموں اور خود آرٹس کونسل کو خبردار کیا کہ بعض بیانات جاری کرنے اور سیاسی اقدامات اٹھانے کی صورت میں ان کی ’ساکھ خطرے‘میں پڑ سکتی ہے۔ اس خطرے کی وجہ سے ان تنظیموں کو ملنے والا فنڈ متاثر ہو سکتا ہے۔
میرے جیسے فنکاروں اور جن لوگوں کے ساتھ میں کام کرتا ہوں، انہوں نے اس خبر پر شکوک و شبہات اور حقارت کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا۔ ہمیں یہ اقدام آزادی اظہار کو سینسر کرنے اور اس پر قدغن لگانے کی سمت میں ایک اور قدم کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
اگلے دن آرٹس کونسل انگلینڈ نے ایک بیان جاری کیا، جس کا مقصد ہم سب کو یقین دلانا تھا کہ سخت اقدام یا سینسر شپ کے برعکس پالیسی اپ ڈیٹ محض حفاظتی اقدامات سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کے باوجود جو زبان استعمال کی گئی وہ مبہم اور بے میل دکھائی دیتی ہے جس سے غیر یقینی کی فضا کو دور کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرٹس کونسل انگلینڈ ان افراد کا جائزہ کیسے لے گی جو اس سب کے خلاف بولتے ہیں، جو فلسطین میں ہو رہا ہے؟ کیا ہوگا اگر ہم اسے ’نسل کشی‘ کہیں، کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی ہے؟
کیا ہو گا اگر ہم میں سے وہ لوگ جو بڑے پیمانے پر قتل عام کی مذمت کرنے کے لیے اپنے فن کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی آرٹس کونسل انگلینڈ کی مالی اعانت سے چلنے والے خیراتی ادارے یا پبلشر کے بورڈ میں شامل ہو جائیں؟ کون سی سیاسی رائے آرٹس کونسل انگلینڈ کے لیے قابل قبول تصور کے دائرے میں آئے گی؟
اور کیا آرٹس کونسل انگلینڈ خود کو واحد ثالث کے طور پر پیش کرے گی جو ان افراد کے خلاف تحقیقات کرے گی جو عوامی سطح پر فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پوری تنظیم کی مالی اعانت بند ہو جاتی ہے؟
یا پھر وہ اس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب تک دائیں بازو کا اخبار باضابطہ شکایت درج نہیں کروا دیتا؟ بنیادی طور پر مخالف خیالات رکھنے والوں کو بھی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تو پھر ہم اچانک ان لوگوں پر پابندیوں کی باتیں کیوں سن رہے ہیں جو کھلے عام اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں؟
میرے خیال میں یہ طریقہ کار نیو لیبر کی 2005 پری وینٹ حکمت عملی کی یاد دلاتا ہے، جو بری طرح ناکام رہی کیوں کہ اس کی بنیادی وجہ مفروضہ، ایجنڈا اور بالآخر تعصب تھا۔
کمپنی کی ’ساکھ کے لیے خطرے‘ کا سبب بننے کے بارے میں فکر کیے بغیر کوئی شخص حقیقی طور پر اظہار رائے کی آزادی کے حق کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟
اگر لوگوں کو اس خوف سے خود کو سینسر کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ پوری تنظیم کا فنڈ خطرے میں پڑ جائے گا تو اس سے ایسا شعبہ کہاں رہ جائے گا جو لوگوں کو اتھارٹی اور طاقت کے عدم توازن کے خلاف بات کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسے شعبے کو یونیفارم بنانے اور اسے قابو میں لانے کی ایک ناقص کوشش ہے جو آرٹ اور سرگرمیوں کے ذریعے رائے عامہ کو تشکیل دینے میں زیادہ بااثر ہو چکا ہے جب کہ پالیسی سازوں اور اقتدار کے لیے ساز باز پر بھی سخت تنقید کر رہا ہے۔
اگرچہ آرٹس کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ان تمام ارکان کی حفاظت یقینی بنائے جن کو وہ مالی امداد دیتی ہے، اسے ضرورت پڑنے پر فن کے ذریعے اظہار اور تخلیق کی آزادی کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہو گا۔
ایسے وقت میں جب بہت سے فن کار، ثقافتی کارکن اور تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہماری حکومت مستقل فائر بندی کا مطالبہ کرے، یہ پالیسیاں منافقانہ اور مخصوص مقاصد لیے ہوئے محسوس ہوتی ہیں۔
یہاں اس بات پر نہ روشنی ڈالنا کوتاہی ہوگی کہ جب روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تو آرٹس کونسل انگلینڈ نے یوکرین کے پورے ثقافتی شعبے اور متاثرہ تنظیموں کے لیے مکمل اور غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا۔
پالیسی کی تبدیلی سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ کس طرح سرکاری فنڈز حاصل کرنے کے عمل کا انحصار ان گروپوں پر ہو سکتا ہے جو خاموشی سے اپنے مالی سپانسر یعنی کنزرویٹو حکومت کے سیاسی خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔
فنڈنگ کے لیے درخواست دینے والوں کو ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ انہیں سرکاری سبسڈی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سیاسی خیالات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس سے اس شعبے کی مجموعی ساخت پر گہرا اثر پڑے گا۔ فن کی تخلیق کے بارے میں اس کا نقطہ نظر متاثر ہو گا اور اسے اختلاف رائے رکھنے والوں کی آواز کو دبانے کی کوشش میں ایک اور پیشرفت کے طور پر دیکھا جائے گا۔
فی الحال جن لوگوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے وہ آزاد این پی اوز ہیں جو ایسے کام کی حمایت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو صورت حال کو جوں کا توں رکھنے میں رکاوٹ ڈالنے سمیت اس کا سامنا کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ آرٹ کے عظیم کاموں میں سے ایک نہیں ہے؟ آرٹ ہمیشہ سے فطری طور پر سیاسی رہا ہے۔
اسے تخلیق کرنے کا حق اور وسائل کس کے پاس ہیں۔ اسے کیسے پیش کیا جاتا ہے۔ اسے کیسے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس کی قدر کیسے کی جاتی ہے اور داخلی سطح پر اس کے ہمارے اوپر پڑنے والے اثرات کا تعین بڑی حد تک سیاسی ماحول سے ہوتا ہے۔ فن کاروں، ثقافتی کارکنوں، خیراتی اداروں اور تنظیموں پر جان بوجھ کر پابندیاں عائد کرنا جمہوری طریقہ نہیں ہے بلکہ سینسرشپ کا ایک گھٹیا اور گھناؤنا عمل ہے۔
اگر ہسپانوی مصور پکاسو نے اپنی گرنیکا نامی تصویر آج بنائی ہوتی اور پیرس انٹرنیشنل ایکسپوزیشن کوئی این پی او ہوتی یا پکاسو کسی تنظیم کے بورڈ کے رکن ہوتے اور ان کے کام کو بہت زیادہ تقسیم کرنے والا، بہت زیادہ متنازع یا اشتعال انگیز سمجھا جاتا تو کیا اس صورت میں پوری تنظیم ’ساکھ کے خطرے‘ کی بنیاد پر فنڈ سے محرومی کی سزاوار ہوتی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائل سوسائٹی آف لٹریچر فیلو اینتھنی ایناکساگورو برطانیہ میں پیدا ہونے والے قبرصی شاعر، ناشر اور معلم ہیں۔ ان کا مضمون انڈپینڈنٹ اردو کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔