حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو ارض فلسطین سے خصوصی نسبت تو حاصل ہے ہی مگر فلسطین کا ایک تاریخی گاؤں ’البرج‘ جو ہزاروں سال سے آباد ہے کو بھی ان دونوں عظیم المرتبت ہستیوں سے ایک نسبت خاص حاصل ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق البرج جغرافیائی اعتبار سے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے نواح میں واقع ہے۔ یہ گاؤں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی گذرگاہ اور مشہور مسلمان سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
’البرج‘ فلسطین کے اقصیٰ جنوب میں ایک طرف جزیرہ نما النقب سے متصل ہے جو ایک طرف سے تو گرین لائن سے ملتا ہے اور دوسری طرف اس کی سرحد مقبوضہ بئر سبع کے ساتھ ہے۔ جنوبی دورہ ٹاؤن کا یہ تاریخی قصبہ ہے جو الخلیل شہر سے 25 کلو میٹر دور اور عرب بدوں کے رہائشی علاقےئ الرماضین کے درمیان ہے۔
’البرج‘ گاؤں سطح سمندر سے 464 میٹر بلند ہے اور اس کی آبادی 2700 نفوس پر مشتمل ہے۔ غرب اردن کے جنوبی علاقوں اسے قدیم ترین فلسطینی گاؤں قرار دیا جاتا ہے جو ہزاروں سال مسلسل آباد ہے۔
البرج کی تاریخی اہمیت
البرج کو الخلیل شہر کے قدیم ترین قصبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ کنعانی دور سے ملتی ہے۔ مشہور تاریخ نویس محمود طلب النمورہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ ’البرج‘ گاؤں کی بنیاد آج سے پانچ ہزار سال قبل رکھی گئی۔ یہ گاؤں جلیل القدر پیغمبر خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سفر کی گذرگاہ کہلاتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے کئی بار اطراف کے علاقوں کے سفر کے دوران وہاں سے گذرنے کا شرف بخشا۔ اس قصبے میں ہزاروں سال پرانے کنعانی اور آرامی ادوار کی تہذیبوں کے اثار موجود ہیں۔ اس میں رومن، کنعانی، فاطمی اور ایوبی دور کے محلات اور قلعے آج بھی عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔
قلعہ البرج
فلسطینی مورخ طلب النمورہ کا کہنا ہے کہ ’قلعہ البرج‘ اس قصبے کے لیے لینڈ مارک کا درجہ رکھتا ہے۔ رومانوی دور کا یہ قلعہ 12 ویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ تاریخی کتب میں اس کا نام ’لوفییر‘ بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قلعے کو ’کاسٹرم فیکم‘ کا نام بھی دیا گیا۔ فرنگی دور میں اس قلعے کو فوجی اور سول دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جب کہ جنگجوں کے دوران اسے محفوظ پناہ گاہ کا درجہ حاصل رہا۔ جنب صلاح الدین ایوبی نے اس علاقے میں صلیبیوں کے خلاف جنگ شروع کی تو یہ قلعہ ایوبی لشکر کامرکزی کیمپ بن گیا۔
ایوبی لشکر کا کیمپ
فلسطینی تاریخ دان النمورہ کا کہنا ہے کہ قلعہ البرج 52 اور 45 میٹر قطر پر مشتمل مستطیل شکل میں تیار کیا گیا ہے۔ اس کی موجودہ اونچائی پانچ میٹر ہے۔ یہ قلعہ بھاری پتھروں کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی دیواریں انتہائی مضبوط ہیں۔ قلعے کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کی بیرونی دیوار کے باہر اطراف میں ایک سرنگ بھی کھودی گئی جس میں پتھروں کی دیواریں تعمیر کی گئیں۔ قلعے کی جنوبی دیوار میں ایک چھوٹا گرجا گھر بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ کئی غاریں، پانی کے چشمےجو اس کے اندر کھودے گئے اور کئی تہہ خانے ہیں۔
قلعے میں مختلف مقامات پر 20 سے25 میٹر اونچے دفاعی برج بنائے گئے ہیں دو زمانہ رفتہ کی جنگوں کے دفاع کی علامت ہیں۔
النمورہ کا کہنا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس قلعے سے اطراف سے گذرنے والے قافلوں کی نگرانی کی جاتی۔طویل عرصے تک یہ قلعہ ایوبی فوج کا مرکز رہا۔ فلسطین اور مصر کے درمیان قافلوں کی آمد ورفت اسی قلعے کے قریب سے ہوتی۔ یہ قلعہ البرج گاؤں کی شہرت میں اضافے کا موجب بنا۔ تاہم البرج میں کئی اور قابل ذکر تاریخی مقامات بھی ہیں۔ ان میں کئی بزرگان دین کے مزارات بھی شمال ہیں جنب میں فاطمی دور کا مقام ابو طوق بھی فلسطینیوں میں بہت مشہور ہے۔
قصبےکے قلب پرنسل دیوار
فلسطین کے دوسرے علاقوں کی طرح دیوار فاصل نے البرج قصبے کو بھی دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ جس کے باعث اس قصبے کی مقامی فلسطینی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک مقامی شہری اور دیہی کونسل کے چیئرمین سرحان العمایرہ کا کہنا ہے کہ نسلی دیوار نے البرج کو دو حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کے ہزاروں دونم رقبے کو ہتھیانے کے ساتھ قلعے کی تاریخی دیواروں، میٹھے پانی کے سب سے بڑے چشمے اور کئی دوسرے تاریخی مقامات پر صہیونی حکام کاقابض ہیں۔
العمایرہ نے کہا صہیونی حکام انہیں قلعے کے قریب گھروں کی تعمیر یا کسی بھی قسم کی دوسری سرگرمی کی اجازت نہیں دیتے۔ فلسطینی شہری قلعے کے قریب اور دیگر مقامات پر اپنی زرعی زمینوں میں نہیں جاسکتے حتیٰ کہ انہیں زیتون اور دیگر پھل دار پودوں کے باغات سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔