امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری کشمکش کو ختم کرنے کے لیے’صدی کی ڈیل‘ کے جس منصوبے کے چرچے ہیں وہ ہنوز شکوک وشبہات کے تہہ درتہہ پردوں کی دبیز تہہ کے اندر ہے۔ سیاسی ماہرین امریکا کے مجوزہ امن منصوبے کو سامنے رکھ کر فلسطین کی موجودہ سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے میں کافی دقت کا سامنا کررہے ہیں۔ بیشتر ماہرین کا خیال ہےکہ صدر ٹرمپ کی مجوزہ امن اسکیم فلسطینیوں کے بنیادی حق خود ارادیت کو ساقط کرنے بلکہ پورے قضیہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی سازش ہے۔ ’صدی کی ڈیل‘ کو دیگر جتنے بھی ناموں کے ساتھ لکھا جائے مگر حقیقی معنوں میں یہ فلسطین کے حوالے سے صہیونی ریاست کا ’ویژن‘ ہے۔
یاد رہے کہ 6 دسمبر 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی کہا کہ وہ جلد ہی امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیں گے۔ حال ہی میں امریکی عہدیداروں نے انکشاف کیا کہ سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کا عمل رواں سال مئی میں فلسطین میں اسرائیلی قیام کی سالگرہ پر منتقل کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ سنہ 1948ء کو مئی کے مہینے میں صہیونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ فلسطینی اسے’نکبہ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
انتظار کی کیفیت
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’صدی کی ڈیل‘کے بارے میں کوئی وضاحت سامنے نہیں آسکی ہے۔ اس کی تفصیلات سامنے آنے میں ابھی وقت باقی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کی رسی کے ساتھ الجھی ہوئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جاری سیکیورٹی تعاون کے ساتھ بانجھ نوعیت کے معاہدے بھی بدستور قائم ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگاراور سیاسیات کے استاد پروفیسر مخیمر ابو سعدہ کاکہنا ہے کہ سیاسی افق پر فلسطینی اتھارتی صہیونی ریاست کے ساتھ معاہدوں میں الجھی ہوئی ہے۔
تجزیہ نگار ابراہیم المدھون کاکہنا ہے کہ مارچ کے مہینے میں فلسطین کی صورت حال پربات کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ خاص طورپر فلسطینی ، علاقائی اور اسرائیلی سطح پر صورت حال کافی پیچیدگی کا شکار ہے۔
تجزیہ نگار مامون ابو عامر کا کہنا ہے کہ امریکا کا اسرائیل کی طرف جھکاؤ واضح ہے اور امریکا فلسطینیوں پر اسرائیلی ویژن مسلط کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری برائے امورمذاکرات صائب عریقات نے کچھ عرصہ قبل صدی کی ڈیل کے بعض پہلوؤں کا انکشاف کیا تھا۔
صائب عریقات نے فلسطین کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ امریکی نام نہاد امن منصوبہ جسے ’صدی کی ڈیل’ کا نام دیاگیا ہے 92 نکات پر مشتمل ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کہاں کھڑی ہے؟
تجزیہ نگار ابوعامر کا کہنا ہے کہ فلسطینی اس وقت اندرونی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ فلسطینیوں کی اپنی صفوں میں یکجہتی کا شدید فقدان ہے اور ان کے طرف سے متفقہ طورپر’صدی کی ڈیل‘ کے حوالے سے کوئی موثر حکمت عملی وضع کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔
اس ضمن میں تجزیہ نگار المدھون کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارتی ہوا کے دباؤ میں ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون میں اضافے اور صدر محمود عباس کے اختیارات میں کمی کا امکان ہے۔ آنے والے دنوں میں غرب اردن کی صورت حال زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔ صہیونی ریاست کی جارحیت میں اضافہ ہوسکتا ہےجب کہ غرب اردن میں صہیونی ریاست کے غلبے اور توسیع پسندی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
مارچ کی پیشن گوئیاں
سیاسی تجزیہ نگار ابو عامر کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پرمسلط اسرائیلی پابندیاں فلسطینی اتھارٹی کے لیے بھی امتحان ہیں۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا کہ وہ غزہ کی پٹی کے عوام اور ان کے دیرینہ حقوق و مطالبات پر فوری توجہ دے ورنہ غزہ میں اٹھنے والا بحران فلسطینی اتھارٹی کو بھی اپنے بہاؤ میں بہا لے جائے گا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے موجودہ صورت حال کئی سوالات میں گھری ہوئی ہے اور کوئی بھی مستقبل کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی کے پاس اس کا کوئی جواب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام فریقین خوف کا شکار ہیں۔ تاہم موجودہ حالات میں فلسطینی قوم کو شکوک کی حالت سے باہر نکل موقع سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔
تجزیہ نگار المدھون کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ انتظار میں ہیں اور وقت گذارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ تحریک فتح اور حماس کو قومی مصالحت کے لیے مصر کی مساعی کوغنیمت سمجھ کرقومی مصالحت کو آگے بڑھائیں۔