انسانی حقوق کی تنظٰیموں کی جانب سے اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید فلسطینی ماؤں کو ان کے بچوں سے ملانے پر عاید پابندی کی شدید مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق گروپوں کا کہنا ہے کہ ماں کے عالمی دن کے موقع پر اسرائیلی زندانوں میں قید 21 فلسطینی ماؤں کو ان کے 78 بچوں سے ملاقات سے محروم کردیا گیا۔
انسانی حقوق گروپ ’ضمیر فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ماں کےعالمی دن کے موقع پر 21 فلسطینی مائیں اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ یہ خواتین اپنے 78 بچوں سے ملاقات سے محروم رہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینی ماؤں کو ان کے بچوں سے ملاقات سے محروم رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ فلسطینیوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے لیے دیگر حربوں میں ماؤں اور بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے حربے بھی شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں قید اکیس خواتین بچوں کی مائیں ہیں۔ انہیں دوران حراست اور گرفتاری کے بعد وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں نیند سے محروم رکھنے، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر بٹھائے رکھنے، کئی کئی روز تک کھانے پینے سے محروم رکھنے کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ فلسطینی اسیران کو دوران قید جسمانی اور جنسی تشدد جیسے مکروہ حربوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ ایک فلسطینی خاتون کو اسرائیلی فوج نے 2014ء کو حراست میں لیا۔ اس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد اسے دو بار عریاں کرکے وحشیانہ تفتیش کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعداس کے کپڑے ایک ایک کرکے وقفے وقفے سے واپس کیے گئے۔
خاتون جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا نے بتایا کہ صہیونی تفیش کار اس سے جنسی اور جسمانی تشدد کے ساتھ نفسیاتی تشدد کا بھی نشانہ بناتے رہے۔ مذکورہ خاتون کے چار بچے ہیں اور وہ بدستور پابند سلاسل ہے۔
تین بچوں کی ماں ’ھ م‘ کو اسرائیلی فوج نے 2016ء کو حراست میں لیا۔ وہ اپنے شوہر سمیت بدستور پابند سلاسل ہیں۔
انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں 6119 فلسطینی مردو خواتین پابند سلاسل ہیں۔ ان میں 350 بچے ہیں جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔