شنبه 03/می/2025

’E1‘القدس کوغرب اردن سے الگ کرنے کی خطرناک صہیونی اسکیم!

جمعرات 22-مارچ-2018

فلسطین کے باخبر ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت 15 مئی کو مقبوضہ بیت المقدس کے اطراف میں واقع کئی اہم علاقوں پر مشتمل’E1‘ اسکیم پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی حکومت کے تین سینیر وزراء نے القدس کو غرب اردن سے الگ کرنے کی سازش پر عمل درآمد کرتے ہوئے بیت المقدس میں ’E1‘ منصوبے کو عملی شکل دینے کی تیاری کررہے ہیں۔

ذرائع نے مرکز کے نامہ نگار کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ، تعلیم اور وزیرقانون نے القدس میں اسرائیلی بلدیہ اور پلاننگ کمیٹی کے ساتھ مل کر ’E1‘ اسکیم کی منظوری کے لیے تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 15 مئی 2018ء کو امریکی سفارت خانے کوالقدس کو منتقل کرنے کا اعلان کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست امریکی صدر کے سفارت خانے کی منتقلی کے موقع سے فایدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ماضی میں امریکی حکومتیں اسرائیل کو ’ای ان‘ اسکیم پرعمل درامد پر خبردار کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست اس پرآج تک عمل درآمد نہیں کرسکی مگر اب امریکا میں موجود حکومت اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسرائیل ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی موجودگی میں دو ریاستی حل کو تباہ کرنے کے لیے القدس کے علاقوں میں ایک نئی غاصبانہ تقسیم کی سازش کررہی ہے۔

خیال رہے کہ ’E1‘ اسکیم کا اعلان اسرائیل نے 1994ء میں کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت 12 ہزار 443 مربع کلو میٹر کے علاقے پر ایک نیا سیکٹر قائم کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس اسکیم میں بیت المقدس کےالطور، عناتا، العیزریہ اور ابو دیس‘ شامل تھے۔ سنہ 1997ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیردفاع اسحاق مرڈخائی نے مزکورہ سیکٹر ایک مربع کلو میٹر کے علاقے میں ایک کارخانہ قائم کرنے اور یہودیوں کے لیے 4000 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پر 10 بڑے ہوٹل بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔

انتہائی خطرناک منصوبہ

فلسطینی تجزیہ نگار خلیل التفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ’ای ون‘ اسکیم کو القدس کو غرب اردن سے جداکرنے کی خطرناک صہیونی اسکیم قرار دیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’E1‘ اسکیم شروع کرنے کے کئی محرکات ہیں۔ مشرقی بیت المقدس کو چاروں اطراف سے اسرائیلی فوج کے گھیرے میں لینا۔ عناتا، الطور اور حزما  کا گھیراؤ کرتے ہوئے مستقبل کی فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا اہم اسباب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست بیت المقدس میں آبادی کا توازن تبدیل کرنے کی سرگرمیوں میں پیش پیش ہے۔

القدس کا گھیراؤ کرنے کےبعد مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کی مساعی روکنا ہے۔ اس کے علاوہ مشرقی بیت المقدس کو شہر سے باہر قائم کی گئی یہودی کالونیوں میں ضم کرنا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست القدس کا گھیراؤ کرنے کے بعد ’عظیم تر یروشلم‘ کے منصوبے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ عظیم تر یروشلم اسکیم میں غرب اردن کے علاقے بھی شامل ہیں اور یہ کل غرب اردن کے 10 فی صد رقبے کے برابر ہے۔

اسرائیلی بلدیہ کے زیرانتظام دیگر یہودی کالونیوں میں معالیہ ادومیم کالونی بھی شامل ہے جو ’E1‘ اسکیم کی توسیع کا حصہ قرار دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کوالقدس میں انتہائی خطرناک منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔

معالیہ ادومیم کا شمارغرب اردن کے اہم ترین تزویراتی مقامات میں ہوتا ہے۔ اسرائیل اس منصوبے کو وادی اردن تک توسیع دینا چاہتا ہے۔ عالمی ماہرین اور مبصرین اسے مشرق وسطیٰ میں امن مساعی میں سب سے بڑی قرار دیتے ہیں۔

غیرآئینی یہودی کالونیاں

صہیونی ریاست کو غیرقانونیوں کے قیام کی ذمہ دار ریاست قرار دیا جاتا ہے۔ قابض اسرائیل نے فلسطین کے چپے چپے پر غیرقانونی یہودیاں قائم کر رکھی ہیں۔ صہیونی ریاست نے معالیہ ادومیم کے ساتھ ساتھ علمون، کفار ادومیم، الون، کیدار، صنعتی کالونی میشور ادومیم، اور کئی دوسرے نام شامل ہیں۔ ان میں 47 ہزار 500 یہودیوں کو آباد کیا گیا ہے۔

معالیہ ادومیم آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی کالونی ہے۔ اس میں آباد کیے گئے آباد کاروں کی تعداد 41 ہزار سے زاید ہے۔ یہ کالونی 50 مربع کلو میٹرپر پھیلی ہوئی ہے، جب کہ اس کالونی کی آبادی تل ابیب کی آبادی کا 10 فی صد ہے، تاہم اس میں مسلسل توسیع پسندی کا عمل جاری ہے۔

سنہ 2001ء کے بعد القدس میں صہیونی ریاست 8 ہزار مکانات تعمیر کرچکی ہے۔

معالیہ ادومیم کے قریب فلسطینی بدوؤں کی 18 کالونیاں قائم ہیں جن میں ساڑھے تین ہزار فلسطینی رہائش پذیر ہیں۔ ان میں ایک بڑا فلسطینی قبیلہ ’عرب الجھالین‘ بھی ہے جو سنہ 1950ء سے مشرقی بیت المقدس، وادی اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان فلسطینیوں کو صہیونی ریاست کی طرف سے جبری شہر بدری کا سامنا ہے۔

اراضی پرغاصبانہ قبضہ

ستمبر سنہ2007ء کو اسرائیلی فوج نے ایک نیا حکم جاری کیا جس میں مشرقی بیت المقدس اور معالیہ ادومیم کے 1128 دونم علاقے پر قبضے کا حکم دیا گیا۔

فلسطینی اراضی غصب کرنے کے لیے ایک سڑک کی تعمیر کا بہانہ رچایا گیا۔ صہیونی فوج کی طرف سے کہا گیا کہ وہ مشرقی بیت المقدس کو غرب اردن کے شمالی اور جنوبی علاقوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے ایک نئی شاہراہ تعمیر کررہی ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ شاہراہ معالیہ ادومیم کو دوسری یہودی کالونیوں کو مربوط بنانے کے لیے تعمیر کی گئی۔

شاہراہ کی تعمیر کے لیے فلسطینی شہریوں کی نجی اراضی غصب کی گئی۔ ان میں ابو دیس، السواحرہ، النبی موسیٰ، الخان الاحمر، کے علاقے شامل تھے۔

یہ سڑک فلسطینیوں کے لیے وبال جان اور صہیونیوں کے لیے ایک نئی سہولت ثابت ہوئی۔ اس سڑک کی تعمیر کے بعد فلسطینیوں ہو ’ای ون‘ کے علاقے سے گذرنے کے لیے ’شاہراہ نمبر ایک‘ کے استعمال پر پابندی عاید کردی گئی۔

مختصر لنک:

کاپی