اسرائیل کی مجسٹریٹ عدالت کی جانب سے یہودیوں اور غاصب صہیونیوں کو مسجد اقصیٰ کے تمام دروازوں کے اندر اور باہر مذہبی رسومات کی اجازت دینے پر فلسطینی عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کی مجسٹریٹ عدالت کے متنازع اور اشتعال انگیز فیصلے کے خلاف فلسطینی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی جاری ہیں۔ سرکردہ شخصیات اور فلسطینی مذہبی، عوامی اور سیاسی جماعتوں نے بھی عدالتی فیصلے کو مذہبی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔
’قدس پریس‘ سے بات کرتے ہوئے قبلہ اول کے امام وخطیب الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کو مذہبی رسومات کی اجازت دینا اسرائیل کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ قبلہ اول اسرائیلی عدالتوں کے ماتحت نہیں بلکہ یہ صرف اور صرف فلسطینیوں کا مقدس مقام ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبلہ اول میں یہودیوں کو عبادت کی اجازت دینے کا اسرائیلی عدالتی فیصلہ پورے خطے میں ایک نئی کشیدگی کا موجب بنے گا۔
ادھر مفتی اعظم فلسطین اور دیار مقدسہ محمد حسین نے بھی اسرائیلی عدالتی فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی اشتعال انگیزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ صرف مسلمانوں کی ہے جس پر کسی دوسرے مذہب یا قوم کے لوگوں کو عبادت یا مذہبی شعائر کی ادائی کا کوئی حق نہیں۔
مسجد اقصیٰ کے خطیب کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی کسی عدالت کی طرف سے یہ پہلا متنازع فیصلہ نہیں بلکہ صہیونی ریاست ماضی میں اس طرح کے متنازع اعلانات اور اقدامات کرتی رہی ہے۔ اسرائیلی عدالتیں سنہ 1975ء کے بعد سے یہودیوں کو قبلہ اول میں مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت دیتے ہوئے مذہبی اشتعال انگیزی کی مرتکب ہوتی رہی ہیں۔