چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیلی مظالم :عالمی ضمیر کہاں ہے؟

اتوار 1-اپریل-2018

فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے ستر سال پندرہ مئی کو پورے ہونے والے ہیں۔اس ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے فلسطینی عوام نے اپنی ہردلعزیز تنظیم حماس کی اپیل پر گزشتہ روز چھ ہفتوں پر مشتمل احتجاجی مارچ کا آغاز کیا توا نہیں پہلے سے پوزیشنیں لیے ہوئے ماہر اسرائیلی نشانہ بازوں اور ٹینکوں کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے نہتے مظاہرین پر براہ راست فائر کھول کے انہیں بھون کر رکھ دیا حالانکہ پرامن احتجاج تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کی رو سے ان کا حق تھا ۔

اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی میں ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے کم از کم سولہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں کی حالت نازک ہے جس کی وجہ سے جانی نقصان میں بڑے اضافے کا اندیشہ ہے۔ کویت کی درخواست پر صورتحال پر غور کیلئے سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لیا گیا ہے فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی درندگی کے اس تازہ مظاہرے پر ہفتے کو ملک بھر میں یوم سوگ کااعلان کیا ہے جبکہ حماس نے ’’واپسی کیلئے عظیم مارچ، ٹرمپ کے لیے پیغام‘‘ کے نام سے شروع کی جانے والی اس احتجاجی تحریک کو مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کے افتتاح اور یوم نقبہ یعنی پندرہ مئی تک جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فلسطین اورکشمیر جدید دنیا میں انسا نی حقوق کی بدترین حق تلفیوں کے دو ایسے مظاہرہیں جو آج کی عالمی طاقتوں خصوصاً مغربی دنیا کی جانب سے انسانیت، عدل و انصاف اور تہذیب و شائستگی کے دعووں کے کھوکھلے پن کو پوری طرح کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ ان دونوں مسائل میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کا کردار آج پہلے سے کہیں زیادہ متعصبانہ اور جانبدارانہ ہے۔ ماضی میں امریکی حکمراں دنیا کو دکھاوے ہی کے لیے سہی بہرصورت اپنی غیرجانبداری کے اظہار کا کچھ نہ کچھ اہتمام کرتے تھے لیکن صدر ٹرمپ نے کسی پردہ داری کی ضرورت محسوس کیے بغیر اسرائیل اور بھارت کی اس طرح پشت پناہی کی روش اختیار کی ہے کہ عملاً آج کا امریکہ ان ملکوں کا آلہ کار بنانظر آتا ہے ۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اقدام کی اقوام متحدہ کے ارکان کی بھاری اکثریت کی جانب سے مخالفت کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد پر مصر ہے۔ اسی طرح کشمیر کے معاملے میں بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے ضمن میں امریکہ اپنا کردار ادا کرنے سے مستقل طور پر گریزاں ہے۔ماضی میں اس حوالے سے جو تھوڑا بہت زبانی جمع خرچ امریکی قیادتیں کیا کرتی تھیں ، اب یہ تکلف بھی باقی نہیں رہ گیا ہے اور امریکہ جس طرح اسرائیل کی ہر من مانی میں اس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے اسی طرح بھارت کی بے جا نازبرداریاں بھی اس کی مستقل حکمت عملی بن چکی ہیں۔

حتیٰ کہ تنازع کشمیر کے منصفانہ تصفیے کے لیے وہ بھارت کوپاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے بھی کوئی مؤثر رول ادا کرنے کی کوئی کوشش کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ انجمن اقوام متحدہ عملاً امریکہ ہی کا آلہ کار بن کر رہ گئی ہے ، چنانچہ مسلم دنیا کے ان دونوں مسائل کے منصفانہ حل کے لیے عالمی ادارے کی قراردادیں عملاً بے نتیجہ ہیں جبکہ مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان میں حق خود اختیاری کے مطالبات کی تکمیل کے لیے اسی ادارے کی قراردادیں امریکی سرپرستی کی بناء پر بلاتاخیر مؤثر ثابت ہوئیں، حتیٰ کہ افغانستان اور عراق پر حملے کے لیے امریکی دباؤ کے نتیجے میں منظور کرائی گئی قراردادیں ان دونوں مسلم ملکوں کی بلاجواز تباہی کا سبب بن چکی ہیں۔ ان حقائق سے ظاہر ہے کہ آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں فی الحقیقت جنگل کا قانون رائج ہے اور اس کا نشانہ بالعموم مسلمان ممالک بنے ہوئے ہیں ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت حاصل کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم کو ازسرنو فعال کیا جائےاورمسلم ملک فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کے منصفانہ تصفیے کے لئے باہمی اتحاد و تعاون سے قابل عمل راستے تلاش کیے جائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 
 
 

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از ایجنسیاں