اسرائیل کی جانبسے مغربی کنارے میں تقریباً 3500 نئے رہائشی یونٹس کی تعمیر کے اعلان بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنروولکر ترک نے جمعے کے روز کہا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں میں غیرمعمولیطور پر توسیع ہوئی ہے۔ اس سے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں سنگین نوعیت کیرکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ بستیاں امن عمل کے لیے خطرناک ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ اسرائیلی بستیوں کی توسیع اسرائیل کی طرف سے آبادی کی نقل مکانی کی پالیسیکا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نےفلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع”جنگی جرم” قرار دیا۔ انہوں نےکہا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں گذستہ سال خاص طور پر اکتوبر2023 کے بعد 24300 یونٹس کا اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ”آباد کاروں کا تشدد اور آبادکاری سے متعلق خلاف ورزیاں چونکا دینے والی نئیسطحوں تک پہنچ گئی ہیں۔ اس سے ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کے کسی بھی عملیامکان کو ختم کرنے کا خطرہ ہے۔”
فلسطینی علاقوں میںانسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اقوام متحدہ کی آزاد خصوصی نمائندہ فرانسسکاالبانیس نے جمعہ کے روز اسرائیل پر کئی دہائیوں سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر جاریرکھنے پر تنقید کی ہے۔
البانیس نے ’ایکس‘پلیٹ فارم پر اپنے سرکاری اکاؤنٹ پر لکھا کہ "اسرائیل 56 سالوں سے غیر قانونیبستیاں بنا رہا ہے، جن میں سے 300 اب صرف مغربی کنارے/مشرقی یروشلم میں ہیں اورانمیں آباد کاری میں اضافے کے لیے دھڑا دھڑ اقدامات ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "صرف مذمت کے الفاظ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی اور استثنیٰکی دہائیوں کو نہیں مٹا سکتے”۔
چند روز قبل مغربیکنارے میں اسرائیل کی سول انتظامیہ کی سپریم پلاننگ کونسل نے یروشلم کے ارد گردمتعدد بستیوں کو وسعت دینے کے لیے تقریباً 3500 نئے سیٹلمنٹ یونٹس کی تعمیر کیمنظوری دی تھی، جس کی عرب اور بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
اقوام متحدہکے رابطہ کار برائے مشرق وسطیٰ امن عمل، ٹور وینس لینڈ نے اسرائیلی فیصلے کی مذمتکی اور ایک بیان میں کہا کہ "میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ تمام اسرائیلیبستیاں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں اور میں اسرائیلی حکام پر زور دیتاہوں کہ وہ آبادکاری کی تمام سرگرمیاں بند کر دیں اور اشتعال انگیز کارروائیوں سےباز رہیں”۔