چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیلی جنگی جرائم ۔۔۔ عالمی عدالت انصاف کے لیے امتحان!

اتوار 8-اپریل-2018

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اپنے حق کے لیے سربکف نہتے فلسطینیوں پرصہیونی ریاست نے ایک بار پھر قیامت برپا کر دی جس کےنتیجے میں 10 مظاہرین شہید اور 1500 زخمی ہوگئے۔

اس سے قبل 20 مارچ کو ’یوم الارض‘ کے موقع پر فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کےاستعمال کےنتیجے میں 22 فلسطینی شہید اور ڈیڑھ ہزار سے زاید زخمی ہوگئے تھے۔

اتنی بڑی تعداد میں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں اور ان کازخمی ہونا اس بات کا قوی اور ٹھوس ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینی مظاہرین کے خلاف  طاقت کا وحشیانہ استعمال کررہی ہے۔ ان پرنہ صرف آنسوگیس کی شیلنگ کی جاتی ہے بلکہ براہ راست فائرنگ اور بموں سے بھی انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فلسطینی مظاہرین کو ہدف بنا کر ان کے جسم کے نازک حصوں، چہرے، سر، گردن اور سینے پر گولیاں ماری جاتی ہیں۔

صہیونی ریاست کے یہ تمام حربے جنگی جرائم میں شمار کیے جاتے ہیں کیونکہ صہیونی فوج جن فلسطینیوں پر آتشیں ہتھیاروں کا استعمال کررہی ہے وہ نہتے ہہیں جن کے پاس چاقو تک نہیں اور وہ صرف پرامن مارچ کی پاداش میں گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں۔

عالمی قانون کی توضیح

تجزیہ نگار اور عالمی قوانین کے ماہر صلاح الدین عبدالعاطی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرامن مظاہرین پر طاقت کا استعمال بین الاقوامی قوانین کی رو سے جنگی جرم ہے اور اس کی باقاعدہ سزا مقرر ہے۔ اس طرح فلسطینی مظاہرین کے خلاف صہیونی فوج کے طاقت کے حربوں کو بھی جنگی جرائم میں شمار کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ عالمی قانون کی رو سے کسی مقبوضہ علاقے میں بسنے والے عوام تحفظ کا حق رکھتے ہیں اور انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچانا غیرقانونی اور ان پر اجتماعی ناکہ بندی مسلط کرنا اجتماعی سزا دینے کے مترادف ، ان کی جان ومال کو خطرےمیں ڈالنا قابل سزا جرم، ان کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرنا قابل مواخذہ ہے۔ گذشتہ دو جعموں کے دوران صہیونی فوج ان تمام مذکورہ جرائم کی مرتکب ہوئی ہے اور عالمی قانون کی رو سے اس کا احتساب ناگزیر ہے۔

عالمی قانون کے تحت چوتھے جنیوا معاہدے اور بین الاقوامی انسانی حقوق پروٹوکول کے تحت سول آبادی کوقابض حکومت کے تسلط میں رہتے ہوئے بنیادی حقوق کے حصول کا حق ہے۔ چوتھے جنیوا معاہدے میں بین الاقوامی مسلح لڑائیوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

خاتون سماجی کارکن امیرہ شعث کاکہنا ہے کہ عالمی قانون پرامن مظاہرے کی ضمانت فراہم کرتا، اظہار رائے کے لیے قانونی وسائل کو استعمال کرنے کا حق دیتا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنا حق واپسی کا مطالبہ کرنا عالمی قوانین کی رو سے مبنی برحق ہے۔ عالمی قوانین صراحت کرتا ہے کہ اگر کسی فرد کا طبقے کو کسی دوسرے فرد یا طبقے کی طرف سے جان ومال کے حملے کا خطرہ ہو تو پہلا فریق اپنے دفاع کے لیے تمام وسائل استعمال کرنے اور مزاحمت کے آئینی راستے اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے۔

اسرائیل کا ٹرائل

اسرائیلی جرائم پر نظر رکھنے اور عالمی عدالت سے رجوع کے لیے قائم کردہ فلسطینی حکومت کی خصوصی کمیٹی  نے حال ہی میں ایک فریم ورک تیار کرنا شروع کیا ہے۔ اس کا مقصد تیس مارچ کو اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران 20 نہتے فلسطینی مظاہرین کے قتل کو جلد از جلد عالمی عدالت انصاف میں اٹھانا ہے۔

کمیٹی کے رکن شعوان جبارین کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی سرحد کے قریب پرامن مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے شواہد کو عالمی عدالت میں اٹھائیں گے۔

انسانی حقوق کےامور کے ماہر عبدالعاطی کا کہنا ہے کہ کمیٹی نے عالمی تنظیموں کے ساتھ بھی اس حوالے سے مشاورت اور رابطہ شروع کیا ہے تاکہ جلد از عالمی عدالت میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے حربوں کو اٹھایا جاسکے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم کی شکایت کا یہ پہلا موقع نہیں بلکہ ماضی میں بھی ایسی کئی درخواستیں دی جا چکی ہیں۔ یہ شکایت ان میں ایک اضافہ ہوگا تاہم یہ عالمی عدالت انصاف کے لیےبھی امتحان ہے کہ آیا وہ نہتے فلسطینیوں کو کس طرح بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ دلا سکتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی