مشرقی بیت المقدسکی مسجد اقصی کے احاطے میں ہزاروں مسلمانوں نے پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میںرمضان کی پہلی نماز جمعہ ادا کی۔
چھڑی ٹیکتے بزرگ،پردہ پوش خواتین اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس بچے اسرائیل سے ملحق پرانے شہر کےدروازوں سے گزر رہے تھے، جو پرامن طور پر کھلے ہوئے تھے ،تاہم کچھ نسبتاً کم عمرکے مردوں کو پولیس نے سکیورٹی چیکنگ کرتے ہوئے پیچھے ہٹا دیا۔
ایک 44 سالہ کارپینٹرامجد غالب نے جنہوں نے اپنی جائے نماز کاندھے پر رکھی ہوئی تھی کہا کہ ” وہ(پولیس اہلکار ) یہ فیصلہ بے ترتیبی سے کرتے ہیں کہ کسے اندر جانے دینا ہے اور کسےنہیں اور ہم نہیں جانتے کہ کیوں۔
انہوں نے مزیدکہا کہ” سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ڈر لگ رہا ہے یہ پہلا سال ہے جب ہم پولیس کی اتنیبہت سی نفری کو دیکھ رہے ہیں۔ دو سال پہلے میں ان سے بحث کر سکتا تھا لیکن اب ۔۔وہ ہمیں کوئی موقع نہیں دے رہے۔
ایک 75 سالہ ٹورگائیڈ عزت خوئیس نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "بہت سارے فوجی ہیں۔ یہہمارے لیے اچھا نہیں، مستقبل کے لیے، امن کے لیے اور لوگوں کے اکٹھے رہنے کے لیےاچھا نہیں ہے۔”
مسجد اقصیٰ کااحاطہ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام اور یہودیت کا سب سے مقدس مقام ہے، جسے یہودیٹیمپل ماؤنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
گذشتہ برسوں میںرمضان کے مہینے میں یہ تشدد کے لیے ایک حساس مقام رہا ہے، اور جمعے کو ہزاروں پولیساہل کار تعینات کیے جاتے تھے، جن میں سے کچھ بھاری ہتھیاروں سے لیس ہوتے تھے۔
پولیس نے اس ہفتےکے شروع میں ایک بیان میں کہا تھا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر، مغربی کنارے سےالاقصیٰ تک رسائی کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں کو اس سال کچھ پابندیوں کا سامناکرنا پڑے گا۔
حکومت کے ترجماناوفیر گینڈل مین نے کہا کہ صرف 55 سال اور اس سے زیادہ عمر کے مردوں اور 50 سال سےزیادہ عمر کی خواتین کو علاقے سے مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت ہو گی۔
وزیر اعظم نیتن یاہوکے دفتر نے کہا ہے کہ پابندیوں کے باوجود نمازیوں کو گذشتہ برسوں کی طرح "اسیتعداد میں” مسجد میں داخل ہونے کی اجازت ہو گی۔
لیکن یہ یقیندہانیاں کچھ نوجوان مردوں کے لیے موثر نہیں تھیں جنہیں جمعے کے روز پرانے شہر میںداخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
فدا ابسیہ نے جوپرانے شہر کے گیٹ پریتیموں اور غریبوں کے لیے پیسے اکٹھے کر رہی تھیں کہا کہ”یہ ناانصافی ہے۔ جب وہ نوجوان لڑکوں کو داخلے سے انکار کرتے ہیں، تو مجھےبہت تکلیف ہوتی ہے”۔
ایک اور شخص نےاپنا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، "(جنگ) کے پہلے دن سےہی ہم جانتے تھے کہ ہمیں بہت مشکل دنوں کا سامنا ہو گا۔”
مغربی کنارے کےدوسرے نمازی یروشلم تک نہیں پہنچ سکتے تھے، ان لوگوں میں ام العبد بھی شامل تھیں،جنہوں نے اس کے شمال میں قلندیا چوکی کو عبور کرنے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا”آج انہوں نے مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ میں اداس ہوں، میں سارا دناداس رہوں گی۔”
غزہ میں جنگ ساتاکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کےاس اچانک حملے سے شروع ہوئی تھی جس کے نتیجے میںتقریباً 1160 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حماس کے زیرانتظام غزہ میں وزارت صحت کے مطابق، حماس کے خلاف اسرائیل کی انتقامی مہم میں کماز کم 31490 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
رام اللہ میںوزارت صحت کے مطابق، مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد اپنی دو عشروں کی بلند ترین سطحپر پہنچ گیا ہے۔
وزارت کا کہنا ہےکہ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے ہاتھوں مغربیکنارے میں کم از کم 430 فلسطینیوں کو شہید ہوئے ہیں۔