فلسطین میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظررکھنے والے ایک ادارے کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چھ دسمبر 2017ء کو بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے امریکی اعلان کے بعد اب تک 94 فلسطینیوں کو اسرائیلی ریاستی دہشت گردی میں شہید کر دیا گیا ہے۔
القدس اسٹڈ سینٹر کے اعدادوشمار کے مطابق اعلان القدس کے بعد اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک سو کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں ’حق واپسی‘ مارچ کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں 41 فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ان میں دو معذور جب کہ پانچ مزاحمتی تربیت کے دوران شہید ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق اعلان القدس کےبعد امریکی اعلان کے بعد اسرائیلی ریاستی دہشت گردی میں 10 عسکری کمانڈر جب کہ باقی عام شہری شہید ہوئے۔ شہداء میں دو خواتین،18 بچے اور دو قیدی بھی شامل ہیں۔
خلاف اور دفاع القدس کے لیے سب سے زیادہ جانی قربانی اہالیان غزہ کی طرف سے دی گئی جہاں چھ دسمبر سے اٹھارہ جنوری 2018ء تک غزہ میں 76 شہریوں کے جنازے اٹھائے گئے۔ ان میں دو فلسطینی مزاحمتی کمانڈر بھی شامل ہیں۔ جن میں 41 شہداء تحریک حق واپسی شامل ہیں۔
شہداء تحریک دفاع القدس میں نابلس کے 7، الخلیل سے اور جنین سے چھ، اریحا، رام اللہ، سے دو دو، قلقیلیہ اور القدس سے ایک ایک فلسطینی شہید ہوا۔
عمر کے اعتبار سے 11 سال کے بچے سے ساٹھ سال کی عمر کے افراد کے شہداء شامل ہیں۔ شہداء میں 18 سال کی عمرکے 11 بچے شامل ہیں۔ ان میں 14 سالہ محمد سامی الدحدوح کا خون بھی شامل ہے۔
شہداء القدس میں حمدہ اور وھش الزبیدات کی عمریں 75 سال ہے۔ شہداء القدس میں 9 سالہ دلال دیب لولح کا تعلق نابلس سے ہے۔