اسرائیل کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایک متنازع تصویر گردش کررہی ہے جس میں مسجد اقصیٰ کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تصویر بنائی گئی اور وہ پوریٹ اسرائیل میں متعین امریکی سفیرڈیوڈ فریڈمین کو تحفے میں پیش کیا گیا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 10 پر دکھائی تصویر کے ساتھ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ مذکورہ پورٹریٹ ایک انتہا پسند یہودی تنظیم نے امریکی سفیر کو دی ہے۔ اس پورٹریٹ میں امریکی سفیر کو بھی مسکراتے دیکھا جاسکتا ہے اور اس کے سامنے مسجد اقصیٰ کی بنیادوں پر مزعومہ ہیکل سلیمانی دکھانے کی اشتعال انگیز حرکت کی گئی ہے۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اس پورٹریٹ پر تبصرے اور تجزیے بھی ہو رہےہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ تصویر منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ امریکی سفیر مسجد اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی میں بدلنے کے صہیونی مطالبے کے پر زور حامی ہیں۔
درایں اثناء ڈاکٹر صائب عریقات نے امریکی سفیر کو تحفے میں پیش کی گئی تصویر کو شرمناک اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں صائب عریقات نے کہا کہ ایک ایسی تصویر جس میں مسجد اقصیٰ اور حرم قدسی کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تصویر اور ساتھ ہی امریکی سفیر کو مسکراتے دکھایا جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا مل کر مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی سازشوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل میں متعین امریکا کے موجودہ سفیرڈیوڈ فریڈ مین کو صہیونیوں کا طرف دار قرار دیا جاتا ہے۔ موصوف فلسطین میں یہودی آباد کاری کے سب سے بڑھ کر پرچارک کرتے ہیں۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور امریکی سفارت خانہ کی القدس منتقلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
غیر روایتی تصویر
اسرائیل میں متعین امریکی سفیر اور ان کے ہاتھ میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تصویر نے سوشل میڈیا پرایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ فریڈ مین کا مسجد اقصیٰٗ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تصویر دیکھ کر مسکرانا ان کی مسجد اقصیٰ اور حرم قدسی کے حوالے سے پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔
بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فریدمین ایک انتہا پسند صہیونی ہے جو خود بھی یہودی کالونیوں میں رہ چکا ہے۔ صہیونی ہونے میں وہ ’گیونزکی‘ اور ’بم گوریون‘ سے زیادہ انتہا پسند ہے۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار کا کردار ادا کرنے والے فریڈ مین نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی میں غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ وہ فلسطین میں یہودی آباد کاری کا بھی پرزور حامی ہے۔
اس کے علاوہ وہ اسرائیل میں فلسطینیوں کے خلاف سرگرم یہودی انتہا پسند گروپوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے ساتھ فلسطین میں یہودیوں کو بسانے میں بھی ان کی مالی معاونت کرتا رہا ہے۔
فریڈ مین ایک ایسی تنظیم کی بھی قیادت کرچکا ہے جسے کسی دورمیں امریکی وزارت خارجہ دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔ یہ ارئیل نامی ایک مذہبی یہودی گروپ ہے جو یہودی طلباء کو مدد فراہم کرنے اور انہیں فلسطینیوں پر حملوں پر اکسانے میں ملوث رہا ہے۔
تجزیہ نگار راسم عبیدات کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین ایک انتہا پسند دہشت گرد ہے۔ اس کا اسرائیل میں سفیر مقرر کیا جانا امریکا کی عالم اسلام کے خلاف پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔
نفرت انگیز اقدام
تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صائب عریقات کا کہنا ہے کہ امریکی سفیر کی تصویر ایک اشتعال انگیز اور نفرت پر مبنی اقدام ہے۔
صائب عریقات کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ اب وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ مذعومہ ہیکل سلیمانی کی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیوڈ فریڈ مین ایک نئی مذہی جنگ چھیڑنے کی سازش کر رہے ہیں اور وہ مسلمانوں کے پہلے قبلہ کو مسلمانوں سے چھیننے کی مذموم سازش کررہے ہیں۔
صائب عریقات نے استفسار کیا کہ ڈیوڈ فریڈ مین کے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز اقدامات پر آخر کب تک مسلم امہ اور عرب دنیا خاموش تماشائی رہے گی۔
خیال رہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین کو صہیونیوں کا طرف دار اور فلسطین میں یہودی آباد کاری کا سب سے بڑا حامی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے غرب اردن میں ’بیت ایل‘ یہودی کالونی کی تعمیر میں مالی مدد فراہم کی۔
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے اسرائیل میں سفیر مقرر کیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی فلسطین میں یہودی آباد کاری کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ انہوں نے امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی اور القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ڈیوڈ فریڈ مین اور ڈونلڈ ٹرمپ کے باہمی تعلقات کاعرصہ 15 سال پر محیط ہے۔ ٹرمپ نے گذشتہ برس صدارتی انتخابات کے دوران مہم شروع کی تو فریڈ مین کو اپنا تعلقات عامہ کا مشیر مقرر کیا۔ 15 دسمبر 2016ء کو ٹرمپ نے اسے اسرائیل میں امریکی سفیر مقرر کیا اور چند ماہ کے بعد اسے یہ عہدہ سونپ دیا گیا۔