اسرائیلی فوج نے سنہ 2015ء کی عسکری حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے 2018ء کی نئی اسٹریٹجی کا اعلان کیا ہے۔ نئی حکمت عملی میں عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو اہمیت اور ترجیح دی گئی ہے۔
عبرانی نیوز ویب سائیٹ ’واللا‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ فوج نے تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے حالات کے تناظر میں نئی اسٹریٹیجی کا اعلان کیا ہے۔ نئی حکمت عملی میں فوج نے خطے کے عرب ممالک کےساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے ساتھ ریرزو فوج کی تعداد میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عبرانی نیوز ویب سائیٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کو خطے میں پہلے کی نسبت کئی نئے چیلنجز درپیش ہیں۔ اسرائیل اپنے پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور نئے اتحاد تشکیل دینے کے ساتھ سنی مسلمان عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے فروغ کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
عبرانی ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق فوج کا خیال ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے مفادات میں کافی حد تک ہم آہنگی موجود ہے۔ اسرائیل اور عرب ممالک عسکری شعبے میں ایک دوسرے کے معاون بن سکتے ہیں اور مل کر ایک دوسرے اور مشترکہ مفادات اور سیکیورٹی چیلنجز سےنمٹا جاسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ سیکیورٹی کے شعبے میں ہم آہنگی خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگی اور اس کا فائدہ عرب ممالک کو بھی ہوگا۔ خلیجی عرب ممالک ایران، لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ اور شام کو اپنے دائرے میں محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اسرائیل بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔
اسی طرح اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ مل کر ان کا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے فلسطینی تنظیموں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور اسلامی جہاد کو کنٹرول کرسکتا ہے۔
داعش کے خلاف جنگ بھی اسرائیل اور عرب ممالک کے مشترکہ مفادات میں شامل ہے۔ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف جنگ کو کامیابی سے منطقی انجام تک پہنچا سکتےہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج کی جانب سے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دینے کی بات ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب حالیہ مہینوں میں ذرائع ابلاغ میں خلیجی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان کئی شعبوں میں غیراعلانیہ تعاون کی خبریں آتی رہی ہیں۔