فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں 30 مارچ سے جاری تحریک حق واپسی کو کچلنے میں ناکامی کے بعد صہیونی سیاسی اور حکومتی حلقوں میں یہ بحث پوری شد ومد کے ساتھ جاری ہے کہ آیا اس معاملے سے کس طرح پرامن انداز میں نمٹا جائے۔ دوسری جانب فلسطینی تحریک حق واپسی کو طاقت سے دبانے کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو کافی بدنامی کا سامنا ہے اور اسرائیل اس تحریک کے نقصانات بھی اٹھا رہا ہے۔
صہیونی سیاست دان اور نام نہاد دانشور غزہ کی پٹی کے مستقبل کے بارے میں اسرائیلی لیڈر شب کے منصوبوں پر بحث کر رہے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے صہیونی تجزیہ نگاروں کی آراء کی روشنی میں غزہ کے مستقبل کے بارے میں اسرائیلی منصوبوں پر بحث کی ہے۔
لائبرمین کے شکوک
’غزہ کا تنازع‘ کے عنوان سے اسرائیلی عسکری تجزیہ نگار الیکس فیشمن نے اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈر لائبرمین اور اسرائیل کی فوجی قیادت میں غزہ کے حوالے سے کسی اقدام کے بارے میں اتفاق رائے اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں لائبرمین نے’ایلات‘ میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ غزہ میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کے کاغذی آتش گیر جہازوں کے پھینکے جانے کا سلسلہ بند ہوگا۔ سرحد پر ’دہشت گردانہ بے چینی‘ برقرار رہے گی۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غزہ کی پٹی کی سرحد پرامن قائم ہوجائے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کررہے ہیں۔
غیرفوجی حل
مگر لائبرمین کو ایک سینیر عسکری عہدیدار کے بیان نے سخت سیخ پا کیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فوجی کارروائی کے بجائےہمیں کشیدگی سے بچنے کے لیے غیر فوجی انداز فکر اپنانا ہوگا۔ غیرفوجی پروگرام میں غزہ کی گذرگاہوں پر نرمی۔ خوراک، پانی، سوریج، غزہ میں صنعتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور اس کے مماثل دیگر اقدامات ممکنہ جنگ کے خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔
فیشمن نے مزید لکھا کہ غیرفوجی پروگرام کی تجویز ایک سینیر فوجی ذرائع سے دی گئی مگر لائبرمین اور ان کا دفتر اس تجویز سے قطعا متفق نہیں بلکہ وہ اس تجویز پر سیخ پا ہوئے ہیں۔
ریچھ کی کھال
ایلات کانفرنس سے خطاب میں لائبرمین نے کہا کہ ہماری طرف سے غزہ کے لیے کوئی بھی اقدام انسانیت کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ دہشت گردی کے خطرے کی روک تھام کے لیے۔ جب تک غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی عمل نہیں لائی جاتی اس وقت تک معاملہ مثبت سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اسرائیل چاہے توغزہ میں کئی سال کی جنگ بندی بھی کرسکتا ہے مگر 10 سال کی جنگ بندی بھی سوائے حماس کے کسی کے لیے مفید نہیں۔
لائبرمین کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں غزہ کی پٹی کے مسئلے کا حل آگے بڑھ کر حماس کی جنگی صلاحیت پرکاری ضرب لگانے میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر غزہ میں حماس کا نیٹ ورک تباہ ہوتا ہے تو اس کے بعد اسرائیل کو انسانی بنیادوں پرحماس اور محمود عباس سے ماورا بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے اقدمات مفید ہوسکتے ہیں۔
بند گلی
غزہ ایک میدان جنگ ہے جس کے عرب اور عالمی سطح پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے مالیاتی سیکٹر کا اپنا رنگ اور ذائقہ ہے۔ اسرائیل، مصر اور سعودی عرب نہیں چاہتے کہ غزہ میں ترکی اور ایران اپنا پیسہ لگائیں جبکہ قطر کا خیال ہے کہ دوسرا کوئی خلیجی ملک غزہ میں مالی مدد نہ کرے۔ اسی طرح صدر محمود عباس ڈونرممالک سے حاصل کردہ امداد غزہ کو منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ امریکا اور یورپی یونین بھی کا موقف بھی یہی ہے کیونکہ یہ تمام قوتیں حماس کو دہشت گرد تنظیم خیال کرتی ہیں اور اسے کسی قسم کا مالی تعاون فراہم کرنا دہشت گردی کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی کے اقتصادی مسائل کے حوالے سے گومگوں کا شکار ہے۔ ایک طرف اسرائیلی وزیر دفاع غزہ کی پٹی کی سرحد پر نذرآتش ہونے والےفصلوں کے نقصان کے ازالے کے فلسطینی ٹیکسوں سے کٹوتی کا مطالبہ کرتے ہیں تو اسرائیلی وزیر خزانہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وزیر مالیات کا کہنا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی رقوم اور ٹیکسوں میں مزید کٹوتی کی گئی تو حالات بند گلی کی طرف چلے جائیں گے۔
نیا مارشل پلان
اسرائیلی صحافی اور تجزیہ نگار بن کسبیٹ نے سیاسی ذرائع کےحوالے سے بتایا کہ اقوام متحدہ نے غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے عالمی برادری کی مدد سے مارشل پلان تیار کیا ہے۔
بن کسبیٹ کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں اگرغزہ کی سرحد پر کشیدگی نہ ہوتی تو اسرائیلی کنیسٹ بھی اس پرغور کرنے والی تھی۔ آئندہ اتوار کو اس تجویز پرغور کا امکان ہے۔ اس فارمولے کا مقصد غزہ میں انسانی بحران کو ٹالنا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیر یسرائیل کاٹز بھی غزہ کی تعمیر نو کی تجویز دے چکے ہیں۔
بن کسبیٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے امن مندوب ملاڈینوف دن رات ایک مارشل پلان پرکام کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنا یہ پروگرام اسرائیلی حکومت کے رابطہ کار فولی مرڈ خائی کے سامنے بھی پیش کیا ہے۔