اگست 2016ء سے 2018ء کے دوران فلسطین میں پے درپے ایسے کئی واقعات رُونما ہوئے جنہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے منفی کردار اور عدلیہ کو پامال کرنے کے جرائم نے فلسطینی اتھارٹی کی پالیسی پر ایک نیا سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی ادارے پہلے بھی بے لگام رہے ہیں مگر حالیہ عرصے کےدوران عباس ملیشیا کی عدلیہ کے فیصلوں کو پامال کرنےکےواقعات میں اضافہ ہوچکا ہے۔
فلسطینی ملیشیا کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا ایک تازہ واقعہ حال ہی میں پیش آیا۔ 18 اگست عصر کےوقت عباس ملیشیا کے اہلکاروں نے پرانے بیت المقدس میں گھات لگا کر کی گئی کارروائی میں دو فلسطینیوں کو قتل اور متعدد کوزخمی کر دیا۔
ایک فلسطینی نوجوان احمد ناجی ابو حمادہ کو گرفتار کرلیا گیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کے پولیس اہلکاروں نے دو شہریوں کو حراست میں لے لیا۔ یہ گرفتارریاں حارہ الشیخ کے مقام سے کی گئیں اور دونوں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں گولیاں مار کر قتل کردیا۔
ایک ہفتہ پیشتر نابلس کے گورنر اکرم الرجوب نے احمد عزحلاوہ المعروف ابو العز حلاہ کوایک سیکیورٹی اہلکار کے قتل کا قصور وار قرار دیا۔ حالانکہ اسےجنید جیل میں درجنوں پولیس اہلکاروں نے ابو العز کووحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
واقعات کا تکرار
الزعبور کی گرفتاری، حراستی مرکز میں اس پر تشدد اور پراسرار حالت میں اس کی موت نے کئی سابقہ واقعات یاد دلا دیے۔
الزعبور سے قبل 8 مارچ 2016ء یحییٰ السلمان کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا، جب کہ اس کے بعد 19 مارچ 2017ء کو سارجنٹ حسن ابول الحاج کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔
البلاطہ پناہ گزین کیمپ کے رہائشی شہریوں میں الزعبور کو فلسطینی ملیشیا نے اشتہاری قرار دے رکھا تھا۔ ان کا تعلق تحریک فتح کے رکن پارلیمنٹ جمال الطیراوی سے ہےاور وہ فتح کے منحرف رہ نما محمد دحلان گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری موقف کے مطابق الزعبورکو تین اگست 2018ء کو اریحا جیل سے اچانک حرکت قلب سے بند ہونے کے باعث اسپتال لایا گیا جہاں وہ 12 اگست کی رات کو دم توڑ گئے۔
تاہم ابوحمادہ کے لواحقین نے فلسطینی اتھارٹی کا موقف مسترد کردیا اور کہا ہے کہ ابو حمادہ کو تشدد کے بعد زہر دے کر شہید کیا گیا۔ اہل خانہ نے اس کا پوسٹ مارٹم کرنے اور قتل کی تحقیقات کامطالبہ کیا گیا۔
شفافیت کا فقدان
الزعبور کی پراسرارموت نے فلسطینی اتھارٹی کے کردار پر کئی شبہات چھوڑ دیے ہیں۔ واضح ہوگیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کے ماتحت اداروں میں شفافیت کا شدید فقدان ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار یاسین عزالدین کاکہنا ہے کہ اگرچہ الزعبور کی موت کے حوالے سے مختلف روایات پائی جاتی ہیں مگر فلسطینی اتھارٹی اور نابلس کے گورنر کو اس قتل سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ ایک مافیا کی طرح لوگوں سے سلوک کرتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کوئی قانونی اتھارٹی نہیں بلکہ ماورائے قانون اقدامات پرعمل کرتی ہے۔
عزالدین کا کہنا ہے کہ نابلس کے گورنر نے فلسطینی مظاہرین کو متعدد بار سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور غزہ کی پٹی کی حمایت میں فلسطینیوں کو احتجاج سے سختی کے ساتھ منع کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے کردار میں عدم شفافیت کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔