انسانی حقوق کی ایکتنظیم نے کہا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے غزہ کی پٹی کے خلاف اپنی جارحیت کے آغازسے لے کر اب تک تین ہزار فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے، جن میں خواتین، بچے،بوڑھے اور ڈاکٹر شامل ہیں۔
المیزان سینٹرفار ہیومن رائٹس نے کہا ہے "اسرائیلی فوج نے غیر قانونی جنگی قانون کے تحتغزہ کے 1650 قیدیوں کو اسرائیلی عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔ یہ 2002ء میں جاریکردہ ایک قانون ہے اور گذشتہ دسمبر میں اس میں ترمیم کی گئی تھی جس سے قیدیوں کوکسی بھی عدالتی نظرثانی اور منصفانہ ٹرائل کی ضمانتوں سے محروم رکھا گیا تھا”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "ان قیدیوں کو نفحہ اور نقب جیلوں میں دنیا سے مکمل طور پر الگ تھلگکر دیا گیا ہے، کیونکہ یہ قابض دشمن ان سے متعلق معلومات کی اشاعت کو روکتا ہے اورانہیں وکیل یا کسی قانونی نمائندگی سے محروم کرتا ہے”۔
مرکز نےبتایا کہ”قابض دشمن نے غزہ سے مزید 300 قیدیوں کو جن میں 10 بچے بھی شامل ہیں، کو دیگرمقدمات کی تفتیش کے لیے اشکلون اور عوفر جیلوں میں منتقل کیا ہے”۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ "تمام زیر حراست افراد کو تشدد اور توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ ان کی گرفتاری کے لمحے سے لے کر تفتیشی مراکز تک ان کا انسانی وقار مجروحکیا جاتا ہے‘‘۔
مرکز نے ایک زیرحراست شخص کے حوالے سے بتایا کہ "اسے مارا پیٹا گیا اور اس سے پوچھ گچھ کےدوران اس کے تین ناخن نکال دیے گئے۔ پوچھ گچھ کرنے والوں نے اس پر ایک کتے کو بھیچھوڑا جس نے اسے بری طرح نوچا‘‘۔
المیزان سینٹر نےبین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ "مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے حوالے سےاپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں ادا کریں، بین الاقوامی قانون کی دفعات کو نافذکریں، شہریوں، خاص طور پر زیرحراست افراد کی حفاظت کریں اورحراستی کیمپوں اور جیلوںمیں ان پر کیے جانے والے تشدد کو روکیں‘‘۔