فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کی صہیونی ریاست سے متصل شمالی سرحد پر 30 مارچ 2018ء سے ہزاروں فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر اپنے سلب شدہ وطن واپسی کے حق کے حصول کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں۔ مظاہرین کو کچلنے کے لیے قابض صہیونی ریاست کی طرف سے طاقت کا اندھا دھند استعمال بھی روز کا معمول ہے، جس کے نتیجے میں اب تک دو سوکے قریب فلسطینی شہید اور انیس ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔
غزہ کی سرحد پراحتجاج کے لیے جمع ہونے والے فلسطینیوں کو صہیونی ریاست کی منظم دہشت گردی کا سامنا ہے۔ایسے میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنےکے لیے امدادی کارکن بھی وہاں موجود ہوتے ہیں۔
ان امدادی کارکنوں میں 4 سالہ مریم المغربی نامی ایک ننھی منھی فلسطینی کارکن بھی شامل ہیں۔ مشرقی البریج پناہ گزین کیمپ کے قریب خیمہ زن فلسطینی مظاہرین کے درمیان المغربی کو طبی عملے کے روایتی سفید لباس میں بارہا دیکھا گیا۔
شاید مرکزاطلاعات فلسطین کے قارئین یہ سوال اٹھائیں کہ بھلا چار سالہ بچی بھی امدادی کارکن یا طبی امداد فراہم کرسکتی ہے مگر اس کے والد نے اپنی کم عمر ننھی جہد کارہ کی جانثارانہ سوچ اور جذبے کی حیران کن تفصیلات بیان کی ہیں۔
مریم المغربی اور اس کا پورا خاندان عظیم الشان حق واپسی اورغزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتا ہے۔ خاندان کے تمام چھوٹے اور بڑے افراد احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں اور پوری تیاری کے ساتھ اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔
جہاں تک امدادی کارکنوں کا تعلق ہے تو وہ مظاہرین کے شانہ بہ شانہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ انہیں بھی صہیونی فوج کی طرف سے حملوں کا سامنا ہوتا ہے۔ قابض فوج کی منظم ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک متعدد فلسطینی امدادی کارکن شہید اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں۔ مجموعی طور پرچھ ماہ سے جاری تحریک حق واپسی کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 173 فلسطینی شہید اور 19 ہزار 600 زخمی ہو چکے ہیں۔
کم سن مجاھدہؔ
مریم کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے چھوٹے بڑے تمام افراد چھ ماہ سے جاری تحریک حق واپسی میں بھرپور شرکت کررہےہیں۔ والدہ کا کہنا ہے کہ مریم انہیں یہ پوچھتی رہتی ہے کہ ہم لوگ سرحد پر کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اور اسرائیلی فوجی ہم پر فائرنگ کیوں کرتے ہیں؟۔
مریم نے حال ہی میں اپنے والدہ سے کہا کہ وہ شہید طبی امدادی کارکن رزان نجار کی طرح زخمیوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔ رزان النجار کو چند ماہ قبل اسرائیلی نشانہ باز نے ایک خیمے میں زخمیوں کو مرہم پٹی کرنے کے دوران گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔
اب مریم المغربی بھی اپنی معصوم خواہش کے مطابق طبی عملے کے سفید لباس میں مظاہروں میں شرکت کرتی ہے۔ وہ اگرچہ کم زور اور ناتواں ہونے کی وجہ سے زخمیوں کا علاج نہیں کرسکتی مگر ان کے آس پاس ضرور آتی جاتی ہے۔
طبی سامان
حال ہی میں مریم کے والد نے بتایا کہ مریم کی طرف سے ایک روز ان سے طبی امدادی سامان منگوایا اور اس کے بعد وہ سامان ساتھ لیے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوگئی۔
اس نے اپنے ہاتھوں پر دستانے چڑھائے، اپنے بھائی کے زخمی ہاتھ کی مرہم پٹی کرنے لگی، جسے فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔
مریم کے دادا صبحی المغربی کا کہنا ہے کہ اس کی پوتی بھی غزہ کے دوسرے بچوں کی طرح اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے فلسطینیوں کو دیکھ کر بہت دکھی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ ہمارے ساتھ احتجاجی جلوسوں میں شریک ہوتی ہے اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی مرہم پٹی میں مددکرتی ہے۔
مریم کی والدہ ام براء کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ننھی منھی امدادی کارکن کے ساتھ ہیں۔ اسے تیار کرتے ہیں اور البریج پناہ گزین کیمپ تک لے جاتے ہیں۔ وہ کوئی پیشہ ور طبی کارکن نہیں مگر اس کے باوجود اس کا جذبہ بڑوں کے برابر ہے۔