اقوام متحدہ کے اعانتی مشن برائے افغانستان نے بدھ کو ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ فضائی حملوں میں افغانستان کی شہری آبادی کے ہلاک و زخمی ہونے والوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس سال کے آغاز سے ستمبر کے آخر تک 8050 شہری ہلاک و زخمی ہوئے، جن میں سے 2798 ہلاک جب کہ 5252 زخمی ہوئے۔
سترہ برس کے تنازعے کے دوران گذشتہ پانچ برس شہری آبادی کے لیے مہلک ترین ثابت ہوئے۔ اس بات کا ’یو این اے ایم اے‘ کے چارٹ سے پتا چلتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے مسلح تنازع میں شہری آبادی کے تحفظ سے متعلق سہ ماہی رپورٹ کے مطابق، ہلاک و زخمی ہونے والے زیادہ تر لوگ غیر ریاستی عناصر کے اقدامات کے نتیجے میں ہلاک و زخمی ہوئے، جن میں طالبان اور داعش شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’خودکش حملوں میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد کے استعمال میں اضافہ ہوا، جب کہ یہ مواد ’’تواتر سے اور ہلاکت خیزی‘‘ کے اعتبار سے بہت ہی مہلک تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ ’’65 فی صد شہری ہلاکتیں جن کا الزام حکومت مخالف عناصر پر دھرا جاتا ہے، 35 طالبان کی کارستانی ہے، جب کہ 25 فی صد داعش صوبہ خوراسان دھڑے کا کام ہے، اور پانچ فی صد غیر شناخت شدہ حکومت مخالف عناصر کے ذمے ہے ،جس میں سے ایک فی صد سے بھی کم خود ساختہ داعش کا کام ہے۔
ہلاک و زخمی ہونے والی شہری آبادی کے واقعات میں 29 فی صد وہ ہیں جو لڑائی میں جُتے ہوئے دھڑوں کے زمینی حربوں کا نتیجہ ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میدان جنگ میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، جس کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ مختلف فریق نے شہری آبادی کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں کی ہیں، جن میں پیشگی انتباہ جاری کیا جانا شامل ہے۔
جس صوبے میں سب سے زیادہ شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں وہ ننگرہار ہے، جہاں داعش صوبہٴ خوراسان، جو داعش کی افغان شاخ ہے، اس کے اب بھی مضبوط ٹھکانے موجود ہیں۔ امریکی افواج کے لیے 2017ء میں یہ صوبہ مہلک ترین ثابت ہوا۔