فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر فوج کشی کی صہیونی دھمکیاں ویسے تو روز کا معمول ہیں مگر حالیہ ایام میں اس طرح کی دھمکیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کیا صہیونی سیاست دانوں اور فوجی قیادت کی طرف سے غزہ کی پٹی پر چڑھائی کی دھمکیاں اب کی بار سنجیدہ ہیں یا صرف فلسطینیوں کو ڈرانے اور انہیں غزہ میں جاری احتجاج کی تحریک روکنے پر دبائو ڈالنے کی کوشش ہے؟ مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں ماہرین کی آراء کی روشنی میں اسی سوال کا تجزیہ کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ کی پٹی میں حالیہ عرصے کے دوران احتجاج میں شدت دیکھی گئی ہے۔ 14 مئی 2018ء کو غزہ کی پٹی میں ہونے والے احتجاج کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب غزہ میں احتجاج کی لہر غیر معمولی طور پر سخت ہے اور فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں کی طرف مارچ کرتے ہیں۔ دوسری طرف قابض فوج بھی فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرکے انہیں شہید اور زخمی کرنے کی مجرمانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
رواں ہفتے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے غزہ کی پٹی پر فوج کشی کرنے اور اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کو المناک ضرب لگانے کی دھمکی دی تھی۔
لائبرمین روزانہ کی بنیاد پر غزہ کے عوام کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس کی طرف سے شروع کی گئی حق واپسی تحریک نے غزہ کی سرحد کی دوسری طرف قائم درجنوں یہودی کالونیوں کے آبادکاروں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار صالح النعامی نے "مرکز اطلاعات فلسطین” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ایام میں اسرائیلی حکومت کی طرف سے جہاں بار بار غزہ پر فوج کشی کی بات کی جاتی رہی ہے وہیں اسرائیلی سیاست دانوں کی زبان پر غزہ پر حملے کی باتیں ہیں۔
مزاحمت روکنے کی کوشش
ایک سوال کے جواب میں صالح النعامی نے کہا کہ غزہ پر فوج کشی کی دھمکیوں کے پیچھے دراصل غزہ کی مزاحمت کو روکنے کی صہیونی فکر کار فرما ہے۔ اسرائیل بار بار دھمکیاں اس لیے دے رہا ہے تاکہ غزہ کے عوام حق واپسی مارچ اور غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی مہم بند کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاھو اگر موجودہ حالات میں غزہ پر فوج کشی کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کا سیاسی مستقبل دائو پر بھی لگ سکتا ہے۔ آنندہ سردیوں میں اسرائیل میں پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ایسے میں صہیونی حکومت غزہ کی پٹی پر وسیع پیمانے پر فوج کشی کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی موجودہ کوشش غزہ کی پٹی اور سنہ 1948ءکے مقبوضہ علاقوں کے درمیان سرحد پر کنکریٹ کی دیوار کھڑی کرنا ہے تاکہ جنگ کی صورت میں فلسطینی مزاحمت کار سرنگوں کے ذریعے دراندازی کی کوشش نہ کرسکیں۔
جہاں تک غزہ میں حماس کو نشانہ بنانے کی صہیونی دھمکیوں کی بات ہے تو اسرائیل دراصل یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس نے مذاکرات کے ذریعے غزہ میں حالات کو پرسکون کرنے کی کوشش کی مگر حماس اسرائیلی کوششوں کا مثبت جواب نہیں دے رہی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے یہ دھمکیاں ایک ایسے وقت میں دی جا رہی ہیں جب مصری انٹیلی جنس چیف میجر جنرل عباس کامل بھی خطے کےدورے پر ہیں۔ وہ غزہ میں حماس کی قیادت، رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی اور تل ابیب میں اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
فوجی جارحیت کے خطرات
تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی پر فوج کشی کا ماحول پیدا کررہا ہے۔ ہرآنے والے دن صہیونی ریاست غزہ کے مظاہرین سے زیادہ طاقت سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ گذشتہ جمعہ کا احتجاج اس کا شاہد ہے کیونکہ صہیونی فوج نے غزہ کی مشرقی سرحد جمع ہونے والے فلسطینیوں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں جس کے نتیجےمیں سات فلسطینی شہید اور اڑھائی سو سے زاید زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر فوج کشی کا فیصلہ اتنا آسان نہیں۔ اسرائیلی ریاست کو ایسی کی بھی کارروائی کے رد عمل کا بہ خوبی اندازہ ہوگا۔ البتہ اسرائیل محدود پیمانے پر غزہ پر حملے کرسکتا ہے۔
ابو عامر کا کہنا تھا کہ جب بھی اسرائیل غزہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہاں کی آبادی میں خوف وہراس پھیلانے کے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ غزہ کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کا غزہ کی پٹی پر چڑھائی کا موقف حکومت کے موقف سے مختلف ہے۔ فوج میں فی الحال غزہ پر چڑھائی کا حوصلہ دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی اسرائیل کے بائیں بازو کے سیاسی حلقے ایسی کسی مہم جوئی کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔