دوشنبه 05/می/2025

ھانی خوری فلسطین کا”اسٹیفن ہاکنگ”!

جمعہ 19-اکتوبر-2018

فلسطینی نژاد ھانی خوری جسمانی طور پر ایک مفلوج ہیں مگر انہوں نے اپنی محنت سے نہ صرف اپنا اور اپنے خاندان بلکہ فلسطینی قوم کا سر بھی فخر سے بلند کر دیا ہے۔

ھانی خوری 35 سال سے امریکا میں‌ مقیم ہیں جہاں انہوں نے سائنس کے مضامین میں نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ ان کا شمار فلسطینی نژاد سائنسدانوں اور موجدین میں ہونے لگا ہے۔ وہ امریکا کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ سائنس کی تحقیق وجستجو کے میدان میں بھی پیش ہیں۔ ان کی معذوری ان کے اس علمی اور تحقیقی مشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔

مرکز اطلاعات فلسطین نے فلسطینی قوم کے اس عظیم سپوت کے حالات زندگی اور کارناموں پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔

تعارف

ھانی خوری سنہ 1965ء کو غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدائشی ہی جسمانی طور پر کم زور تھے مگر جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے گئے ان کے جسمانی اعضاء نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ وہیل چیئر پر آگئے۔ والدین نے خوری کے علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی مگر قدرت کو ان کے مقدر میں معذوری لکھ دی تھی چنانچہ انہوں نے بہ خوشی اپنی اس زندگی کو قبول کر لیا۔

ان کے اعضاء میں دماغ، آنکھیں، کان اور زبان کے ساتھ دایاں ہاتھ کام کرتا ہے مگر جسم کا بقیہ حصہ مکمل طور پر مفلوج اور معذور ہے۔ وہ اپنے لیے تیار کردہ خصوصی وہیل چیئر کو اپنے دائیں ہاتھ سے حرکت دیتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنی معذوری کو شکست دے رکھی ہے۔

ان کی زندگی کے پہلے 18 سال نابلس میں گزرے۔ وہ آج بھی اپنے اس آبائی شہر اور وطن عزیز فلسطین کی محبت سے بے نیاز نہیں ہوسکے۔ وہ جہاں امریکی لہجے میں انگریزی میں‌ بات کرتے ہیں تو وہیں وہ فلسطینی لہجے میں صاف ستھری عربی بھی بولتے ہیں۔ یہ سب انہیں وطن کی محبت بے دے رکھا ہے۔

جنم بھومی آمد

پروفیسر ڈاکٹر ھانی خوری حال ہی میں اپنے آبائی شہر نابلس آئے تو علاقے کے عوام نے اپنی آنکھیں ان کے لیے فرش راہ کیں۔ اگرچہ وہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں مگر وطن سے محبت انہیں دیگر فلسطینی طبقات سے کم نہیں۔

نابلس میں آنے کے بعد انہیں ان کے بچپن کے دوستوں، ہم جماعتوں، محلے داروں اور دیگر چاہنے والوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان کا زیادہ تر وقت نابلس اور دوسرے علاقوں میں  جامعات اور کالجوں میں لیکچرمیں گزرتا ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے خوری نے کہا کہ اگرچہ مجھے امریکا میں رہتے ہوئے 35 سال بیت گئے ہیں مگر مجھے اپنی زندگی کے ان 18 ابتدائی سالوں کا ایک ایک پل یاد ہے۔ میں اپنے وطن کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں‌ بھول سکتا۔ میری روح ہمیشہ نابلس کے ساتھ معلق رہتی ہے۔

انہوں نے اپنے ابتدائی ایام کے بارے میں بتایا کہ پیدائش کے بعد جب میں چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا تو میرے والدین کو محسوس ہوا کہ میں جسمانی طور پر کمزور ہوں اور چلنے پھرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ انہوں نے میرا علاج معالجہ شروع کردیا مگر جیسے جیسے بڑا ہونے لگا تو میں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا میرے لیے مشکل ہوتا گیا۔

معالج بھی میرے علاج سے عاجز آگئے۔ کوئی ماہر سےماہر بھی میری مرض کی تشخیص نہ کرسکا۔ میرا خاندان امریکا منتقل ہوا تو وہاں پر ڈاکٹروں نے میرے مرض کی تشخیص کی، مگر تب وقت ہاتھ سےنکل چکا تھا۔

امریکی ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے ایک ایسی بیماری لاحق ہے جس میں پروٹین کی کمی ہے اور یہ کمی اعصابی نظام کے خلیات کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک انوکھا مرض ہے جس کی دنیا میں 40 اقسام پائی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں بہت مشکل سے قدم اٹھاتا اور اسکول پہنچتا۔ میں اپنے پائوں پر چل کر صرف ایک سال ہی اسکول جاسکا۔ فلسطین میں ہمارے محلے میں ابن قتیبہ نامی ایک پرائمری اسکول تھا اور میں اس کا واحد معذور طالب علم تھا۔

میٹرک کا امتحان رفیدیا کے شاہ طلال اسکول سے کیا۔ مگر اس میں اگلی جماعتوں میں سائنس کے مضامین نہ ہونے کی وجہ سے اسکول چھوڑنا پڑا۔ میٹرک کے بعد گھر سے زیادہ دور واقع قدری طوقان اسکول میں داخلہ لیا۔

سفر امریکا

ھانی خورنی کے کہا کہ جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود حصول علم کا شوق کم نہ ہوا۔ بالآخر میرے والدین نے میرے شوق تعلیم کو دیکھتے ہوئے امریکا کے سفر کا پروگرام بنایا۔ اگرچہ امریکا میں بھی میرے لیے تحصیل علم کا سفر جاری رکھنا اتنا آسان نہیں تھا۔

چونکہ نابلس کے تعلیمی اداروں میں ایسا کوئی نہیں تھا جس میں معذور بچوں کی دیکھ بحال کا کوئی انتظام ہو۔ اس لیے ہمیں بالآخر امریکا کا قصد کرنا پڑا۔

میرے بڑے بھائی نبیل پہلے ہی بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے۔ وہ خانہ جنگی کے عرصے میں وہاں آئے۔ اس کے بعد ہمارا پورا خاندان بیروت آگیا۔ لبنان میں کشیدگی کے بعد ہم وہاں سے امریکا چلے گئے جہاں میرے بھائی نے نیویارک کی "سیرا کیوز” یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

نبیل کے نیویارک پہنچنے اور دیگر افراد کی آمد کے بعد میرے لیے بھی امریکا میں تعلیم کے حصول کی راہ ہموار ہوئی۔

یہاں سے مجھے زندگی کے ایک نئے اور کٹھن مرحلے کا آغاز کرنا تھا۔ میرے والدین نے مجھ میں‌ خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے کہا کہ میں اپنے لیے معاشی ذرائع بھی تلاش کروں۔ والدین کی طرف سے میرے لیے یہ تجویز اس لیے تھی تاکہ میں اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکوں۔

مگر میں اپنی تعلیم جاری رکھنے مصر تھا۔ امریکا جیسے سخت مقابلے والے ملک میں مجھے اپنا مقام بنانے میں کافی دشواریوں کا سامنا تھا مگر میں نے مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے کا عزم صمیم کرلیا۔

پروفیسر ھانی خوری کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک تعلیم ہر انسان کے لیے غیرمعمولی طور پر ضروری تھی اور میں نے اس فارمولے کا اطلاق اپنی ذات پر کیا۔

سخت چیلنج میں کامیابی

ڈاکٹر ھانی خوری کا کہنا ہے کہ میں نے امریکا میں رہتے ہوئے گریجوایشن کے دو کورسز کیے۔ پہلے کورس میں ریاضی اور دوسرے میں سائنس کے مضامین پڑھے اور اعلیٰ نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ ایم ایس سی میں داخلہ لینے کے بعد میں‌نے اپنے لیے روزگار کی تلاش بھی شروع کردی مگر امریکی شہریت نہ ہونے کی وجہ سے معقول ملازمت کا حصول بھی مشکل تھا۔

گریجوایشن کے بعد میرے والدین نے ایک بار پھر مجھے اپنی معاشی ذمہ داریوں کی طرف مبذول کیا اور کہا کہ آپ کو اب اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں جسمانی طور پر اس قابل نہ تھا مگر اپنی تعلیمی قابلیت کی بناء پر اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے ضرور پرامید تھا۔

تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی ملازمت بھی شروع کردی اور معذوری کے باوجود میں اپنے ذمے لگنے والے کام کواحسن طریقےسے انجام دیتا رہا۔ ایم ایس سی کرنے کے بعد امریکا کی سیرا کیوزیونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے پروگرام کے لیے داخلہ لے لیا۔ سنہ 1989ء سے 1995ء کے دوران پی ایچ ڈی کر لی۔ اسی دوران میرا تعارف ایک امریکی خاتون کے ساتھ ہوا جس نے میری جسمانی معذوری کے باوجود مجھ سے شادی پر آمادگی ظاہر کر دی۔ چنانچہ دونوں شریک حیات بن گئے۔

پی ایچ ڈی کرنے کے بعد میں امریکا کی "میرسور” یونیورسٹی جو جارجیا میں‌تھی میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔ میں مسلسل 25 سال سے امریکا اس یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہوں۔ ریاضی کا مضمون میرا پسندیدہ ہے اور میں اسی میں تدریس بھی کرتا ہوں۔

ھانی خوری نے بتایا کہ میری کامیابیوں کا اصل سبب خوف کا ختم ہونا ہے۔ میں نے کبھی "یہ نہیں کرسکوں گا” کا خدشہ دل دماغ میں نہیں رکھا۔ جس کام کے کرنے کا تہیہ کیا اسے کر کے دم لیا۔ خوف اور خدشات کامیاب انسان کو بھی ناکام بنا دیتے ہیں۔ معذوری کے علی الرغم میں نے اپنی تعلیم، اعلیٰ معیار تعلیم اور اچھی ملازمت کے ساتھ ساتھ سائنس کے میدان میں‌تحقیق وجستجو کا سفر نہیں چھوڑا۔ میں امریکا کی یونیورسٹی میں عرب طلباء کی یونین کا صدر اور معذور طلبا فیڈریشن کا سیکرٹری جنرل رہ چکا ہوں۔ میں نے قضیہ فلسطین کے حوالے سے بھی امریکی جامعات اور عالمی فورمز پر تقاریر کیں۔

قومی ذمہ داری

ھانی خوری کا کہنا ہے کہ مجھے امریکی ہونے پر نہیں بلکہ فلسطینی ہونے پر فخر ہے۔ میں بڑے فخر کے ساتھ امریکیوں کے سامنے اپنے ملک، وطن اور قوم کا نام لیتا ہوں۔ میں شعوری طور پر ایک فلسطینی ہوں اور ہمیشہ وطن عزیز فلسطین کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں رہتے ہوئے فلسطین کی نمائندگی کرنا اور فلسطین کے سفیر کے طورپر کام کرنا میری قومی ذمہ داری ہے۔ میں اپنے ملک، قوم، اسیران، شہدا اور ایک ایک ہم وطن کا نمائندہ ہوں۔ میں ان لاکھوں فلسطینیوں کا جزو ہوں جنہوں‌ نے وطن عزیز کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں اور وطن کی آزادی کے لیے قربانیاں دیں۔

مختصر لنک:

کاپی