ایک طرف اسرائیل فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں 30 مارچ سے جاری احتجاجی مظاہرے روکنے کے لیے فوج کشی کی تیاری کر رہا ہے اور دوسری طرف صہیونی تجزیہ نگاروں نے صہیونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ جنگ کی حماقت سے باز رہے ورنہ جنگ کی صورت میں اسرائیل کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار "معاریو” میں بن کسبیٹ نامی ایک یہودی دانشور کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں مظاہرین کا احتجاج روکنے کے لیے فوج کشی کوئی مناسب حل نہیں۔ فوج کشی کی صورت میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی مارے جاسکتے ہیں۔ صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ غزہ پر فوج کشی کرنا خون کے تالاب میں داخل ہونے کے مترادف ہے۔
کسبیٹ کے بہ قول حماس نے غزہ کی پٹی میں سرنگوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ زیرزمین سرنگیں اسرائیلی فوج کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔ صہیونی حکومت اور فوج کو غزہ پر جنگ مسلط کرنے سے قبل اس کے خطرناک نتائج کو ذہن نشین کرلینا چاہیے۔
صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت کو غزہ پرحملے کے حوالے سے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ جنگ کی صورت میں سیکڑوں فوجی ہلاک ہوسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر بھاری تعداد میں فوج اور اسلحہ جمع کرلیا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے بھی دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے بھرپور تیاری کی ہے۔ اسرائیلی حکومت اگر غزہ پر حملے پرمصر ہے تو فلسطینی مجاھدین بھی جواب دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے ایک ویڈیو پیغام میں صہیونی ریاست کو للکارا ہے کہ وہ غزہ پر حملے کی حماقت کے نتائج دیکھ لے گی۔ القسام بریگیڈ کے مطابق دشمن نے غزہ میں مجاھدین کی طاقت اور جنگی تیاریوں کا اندازہ نہیں لگایا۔