اسلامی تحریکمزاحمت [حماس] نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے غزہ جنگ کے حوالے سے متنازع بیاناتاور حماس کو معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی شدید الفاظمیں مذمت کی ہے۔
حماس کی طرف سےجاری ایک بیان کی نقل مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلنکنکے بیانات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کی طرف سےحماس کومعاہدے تک پہنچنے کے لیے لچک نہ دکھانے کا الزام سراسر جھوٹ ہے۔ حماس نے غزہ میںقتل وغارت گری روکنے کے لیے ثالث ممالک کے ذریعے اسرائیل سے بالواسطہ مذاکرات میںبار بار لچک دکھائی ہے مگر صہیونی ریاست کی ہڈ دھرمی کے نتیجے میں جنگ بندی کیمساعی آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں جنگاور فلسطینی قوم کی نسل کشی جاری رکھنا چاہتا ہے اور اس جرم میں امریکہ صہیونیریاست کے ساتھ برابر کا مجرم ہے۔ اسرائیل اور امریکہ غزہ جنگ کو طول دینا چاہتےہیں اور وہ جنگ بندی کے لیے ہونے والی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے پر تلے ہوئےہیں۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ حماس اور مزاحمتی فورسز کے مطالبات پہلے دن سے ہی واضح ہیں اور وہ وہی ہیںجو انہوں نے گزشتہ مارچ میں پیش کیے تھے۔ تمام فریقوں اور ثالثوں نے ان کا خیرمقدمکیا تھا اور وہ ہمارے عوام کے قومی موقف اور ان کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمارامطالبہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں عارضی کے بجائے مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ اسرائیلیقابض فوج کو غزہ سے نکلنا ہوگا اور فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں کو واپس آنے کیغیرمشروط اجازت ہوگی۔
حماس نے اس باتپر زور دیا کہ ہماری قوم کے خلاف نسل کشیکی جنگ میں مکمل شراکت دار کے طور پر امریکی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ امریکہفلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیلی غاصب دشمن کو اسلحہ دیتا ہے اور صہیونی فوجنہتے فلسطینیوں پراس اسلحے کو استعمال کررہی ہے۔
امریکی محکمہخارجہ نے کہا کہ وہ "یرغمالی مذاکرات” کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کےلیے دباؤ ڈالتا رہے گا۔
انہوں نے اپنے بیاناتمیں دعویٰ کیا کہ حماس نے گذشتہ چند ہفتوں میں یرغمالیوں کے مذاکرات میں اپنا مقصدتبدیل کیا اور اپنے مطالبات کو تبدیل کیا۔
انہوں نے کہا کہگیند اب حماس کے کورٹ میں ہے اور اگر اسے فلسطینی عوام کے مفادات کا خیال ہے تواسے مجوزہ معاہدے کو قبول کرنا چاہیے۔