یکشنبه 17/نوامبر/2024

"مدرسہ عثمانیہ” مسجد اقصیٰ کی تاریخی یاد گار!

ہفتہ 3-نومبر-2018

فلسطین کی سرزمین میں اسلام کی عظمت رفتہ کی علامت خلافت عثمانیہ کے دور کی ان گنت نشانیاں موجود ہیں۔ ان میں ایک تاریخی نشانی مسجد اقصیٰ کے پہلو میں آج بھی موجود ہے، جسے مدرسہ عثمانیہ کہا جاتا ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار سے متصل مدرسہ عثمانیہ باب سوق القطانین اور مدرسہ اشرفیہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ اسلامی اوقاف کا حصہ ہے جسے مشہور عثمانی شہزادے محمد کی دختر اصفہان خاتون المعروف خانم کی جانب سے 1436ٕء میں وقف کردیا تھا۔ الست اصفہان نے مدرسے کی تعمیر کے لیےغیر معمولی سخاوت اور ایثار کا مظاہرہ کیا۔ اس مدرسے کے ایک طرف کفر قرع قصبہ واقع ہے جبکہ بلاد روم کی بعض وقف املاک بھی اس کے پہلو میں‌ موجود ہیں۔۔ اس مدرسے کا آغاز قرآن پاک کی تعلیم سے ہوا جس میں ایک قاری صاحب 9 طلباء کو قرآن کی تعلیم دیتے۔ اس کے علاوہ صوفیا بھی اس مرکز میں آتے اور اپنی مذہبی سرگرمیاں انجام دیتے۔

مدرسہ عثمانیہ پر ایک نظر

فلسطینی محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر برائے سیاحتی امور ڈاکٹر یوسف النشتہ نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ مدرسہ عثمانیہ دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔یہ عمارت قبۃ الصخرۃ سے متصل اور اپنے فن تعمیر کے اعتبار سے ایک یادگار علامت ہے۔ اس دو بڑی کھڑکیاں ہیں جو مستطیل شکل میں بنائی گئی ہیں۔ اس کی تعمیر میں سرخ اور سیاہ رنگ کے پتھر استعمال کیے گئے۔

مسجد اقصیٰ کے باب المطہرہ سے داخل ہونے کےبعد شمالی سمت میں واقع خوبصورت عمارت دعوت نظارہ دیتی ہے۔ اس کی تعمیر ممالیک کے دور کے فن تعمیر کے مطابق کی گئی ہے۔ اس کے اوپر ایک مزار ہے جب کہ مسجد السفلی کے نام سے ایک مزار موجود ہے۔ ایک بڑا ہال مسجد اقصیٰ سے متصل ہے۔

اس مدرسے کی تفصیلات عثمانی شیخ الاسلام  سراج الدین عمر بن ابی اللطف اور حنفی مفتی الشیخ طہ بن علامہ شہاب الدین بن احمد کی یادگاروں میں‌ بھی ملتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی