فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے عوام دہری مصیبت کا شکار ہیں۔ انہیں ایک طرف اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ معاشی پابندیوں اور سرحد سے گزرنے پر صہیونی ریاست کی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف انہیں فلسطینی اتھارٹی کے حکام بھی بلیک میل کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب فلسطینی اتھارٹی نے بھی غزہ کی پٹی کے عوام پر معاشی پابندیاں مسلط کر رکھی ہیں۔
غزہ کی پٹی اور مقبوضہ مغربی کنارے کے درمیان "کرم ابو سالم” واحد تجارتی گذرگاہ ہے۔ اگرچہ یہاں سے گذرنے کے لیے اسرائیلی حکام سے جازت لینا بھی ضروری ہے مگر اب فلسطینی اتھارٹی نے بھی فلسطینیوں کو بلیک میل کرنے کرنے لیے اس گذرگاہ پر نیا جگہ ٹیکس لگا دیا ہے۔یو فلسطینی اتھارٹی اس گذرگاہ کوغزہ کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے غزہ کے لیے دیا جانے والا بجٹ نصف کردیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کاٹی گئی ہیں اور غزہ میں بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی ختم کردی گئی اور مریضوں کے علاج کے لیے دی جانے والی طبی سہولتیں بھی ختم کردیں۔
اضافی ٹیکس
گذشتہ روز غزہ کی پٹی میںبری ٹرانسپورٹ یونین نے "کرم ابو سالم” گذرگاہ تجارتی آمد ورفت کا بائیکاٹ کیا۔ یہ بائیکاٹ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عاید کردہ نئے ٹیکس کےخلاف احتجاج ہے۔ حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کی اس گذرگاہ سے گذرنے والی ہر مال بردار گاڑی پر نیا ٹیکس لگا دیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرانسپورٹ کمپنیوں اورٹرک مالکان نے غزہ کی طرف گاڑیاں چلانے کا بائیکاٹ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک فلسطینی اتھارٹی نیا جگہ ٹیکس واپس نہیں لیتی احتجاج کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔
خیال رہے کہ حال میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے کرم ابو سالم گذرگاہ سے گذرنے والے ہر ٹرک پر30 شیکل نیا ٹیکس لگا دیا تھا۔ اس میں 20 شیکل ٹرانسپورٹ ٹیکس اور 10 شیکل میزان ٹیکس کے نام سے ٹیکس لگائے گئے۔
اقتصادی بلیک میلنگ
فلسطینی دانشور طبقے نے رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے عاید کردہ ٹیکس کو معاشی اور اقتصادی بلیک میلنگ قرار دیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے اقتصادی امور کے ماہر اسامہ نوفل نے کہا کہ غزہ اور غرب اردن میں گاڑیوں کی آمد ورفت پر ٹیکس پہلے بھی موجود تھا، اب اس میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اضافہ کیاگیا ہے۔یہ ٹیکس غزہ کے عوام کو بلیک میل کرنے کی ایک نئی سازش ہے جسے عوام نے مسترد کر دیا ہے۔
اسامہ نوفل کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام کو معاشی مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے فلسطین اتھارٹی اور اسرائیل دونوں ایک صفحے پر ہیں۔ تازہ اقدام کوئی نیا یا حیران کن نہیں۔ سنہ 2017ء میں فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کو بھیجے جانے والے سامان پر نیا کسٹم ٹیکس عاید کر دیا تھا۔
فلسطینی وزارت اقتصادیات کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں شہریوں کی قوت خرید میں 50 فی صد کمی آ چکی ہے مگر فلسطینی اتھارٹی اس کے باوجود غزہ کے عوام نئے ٹیکس عاید کرنے سے گریز نہیں کرتی۔