فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے عوام کئی ماہ سے اپنے حقوق کے حصول کے لیے خونی تحریک چلا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی تحریک بالآخر رنگ لانے لگی ہے۔ حال ہی میں غزہ کے عوام کے لیے قطر کی طرف سے 15 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی گئی۔
یہ امداد فلسطینی عوام نے صہیونی ریاست کے جبڑوں سے چھین کرحاصل کی ہے۔ مشرقی غزہ کی پٹی پر 30 مارچ سے جاری احتجاج اور تحریک حق واپسی کے دوران دی جانے والی قربانیوں کا ثمر ہے۔ مبصرین اور اقتصادی دانشور قطری گرانٹ کو غزہ کی دگرگوں معیشت کے لیے ایک ابتدائی سہارا قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں مگر جزوی طور پر غزہ کے عوام کو معاشی ریلیف ملے گا۔ غریب اور نادار خاندانوں کی کفالت، غزہ میں بجلی اور ایندھن کی سہولیات اور غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں مدد ملے گی۔
قطرکی طرف سے دی گئی 15 ملین ڈالر کی گرانٹ ڈاک کے ذریعے جمعہ کے روز سے ان کے مستحقین تک پہنچائی جا رہی ہے۔ قطر کی طرف سے دی جانے والی امدادی رقم کے بعد غزہ کی پٹی میں جاری کساد بازاری میں کمی اور تجارتی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگارنے غزہ میں مختلف بازاروں کا دورہ کیا جہاں غیرمسبوق تجارتی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں۔ کئی ماہ کے بعد غزہ میں عوام بازاروں کی طرف نکلے۔ ماہیرن کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے قطری امداد "فرسٹ ایڈ” کے مترادف ہے۔ یہ مسئلے کا دائمی اور مستقل حل نہیں۔ غزہ کی پٹی میں تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ کے عوام کو مستقل امن کی تلاش ہے۔
قطری امداد”بونس”
فلسطینی معاشی دانشور اسامہ نوف نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قطر کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد "فرسٹ ایڈ” یا بونس کے مترادف ہے۔ غزہ میں اقتصادی بد حالی علاقے کا مرکزی مسئلہ ہے اور اسے اس کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کے عوام کےخلاف اٹھائے گئے انتقامی اقدامات کے نتیجے میں غزہ میں پہلے سے جاری معاشی بحران مزید گھمبیر ہوا ہے۔ غزہ کے عوام کو اربوں ڈالر کی رقم درکار ہے۔ اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں بہتری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ غزہ میں شہری سکون کے ساتھ اپنے کام نہیں کرتے۔
اسامہ نوفل کا کہنا تھا کہ قطر کی طرف سے دی جانے والی امداد موجودہ اقتصادی بحران کا حقیقی حل ہے۔ مگر غزہ کے عوام کو تواتر کے ساتھ امداد فراہم کی جانی چاہیے۔
ان کاکہنا تھا کہ غزہ کا مسئلہ صرف تجارتی سرگرمیوں کی بحالی نہیں بلکہ غزہ میں بجلی اورصحت کے بحران کے خاتمے کے لیے بھی فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
عارضی ریکوری
مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے غزہ کے بازاروں کے دوران جس طرح کی تجارتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے وہ کافی حوصلہ افزاء ہیں۔ تاجر برادری بھی پرامید ہے۔ کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ غزہ کے لیے قطری امداد ان کی رقوم کی ریکوری کا ذریعہ ثابت ہوگی۔
فلسطینی تجزیہ نگار لوئی رجب کا کہنا ہے کہ غزہ میں تجارتی سرگرمیوں کو عارضی بنیادوں پر نہیں بلکہ مستقل انداز میں بحال کرنا چاہیے۔ قطر کی امداد عارضی ریکوری کا ذریعہ تو ثابت ہوگی مگرغزہ میں جاری شورش کی وجہ سے کاروباری طبقے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں لوئی رجب کا کہنا تھا کہ قطری امداد غزہ کی پٹی میں معاشی اور کاروباری سرگرمیوں کی بہتری کے لیے اہمیت کی حامل ہے مگر یہ غزہ کے عوام کی ضروریات کا صرف 10 فی صد ہے۔ انہوں نے عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ غزہ کی معیشت بچانے کے لیے قطر کےنقش قدم پرچلیں اور غزہ کےعوام کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد فراہم کریں۔