چهارشنبه 30/آوریل/2025

‘نسلی تطہیر’ کی صہیونی مہم کے خلاف بطن الھویٰ کی استقامت!

ہفتہ 24-نومبر-2018

ویسے تو فلسطین کے چپے چپے پر بسنے والے فلسطینیوں کو نسل پرست صہیونی ریاست کو منظم نسلی تطہیر اور نسل کشی کی مہم کا سامنا ہے مگربعض علاقے اس مذموم مہم کا کچھ زیادہ ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ انہی میں مقبوضہ بیت المقدس کے سلوان ٹائون کا علاقہ "بطن الھویٰ” بھی شامل ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے "انفارمیشن سینٹر” ‘بتسلیم’ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بھی "بطن الھویٰ” کو درپیش صہیونی نسل پرستی اور وہاں کے فلسطینی باشندوں کی جبری بے دخلی پر روشنی ڈالی ہے۔ اسرائیلی تنظیم نے تسلیم کیا ہے کہ صہیونی حکام باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت "بطن الھویٰ” کے باشندوں کو وہاں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی انسانی حقوق گروپ کے مطابق "بطن الھویٰ” میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی وہاں کی آبادی کے خلاف نسلی تطہیر کا حصہ ہے اور وہاں سے بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو ھجرت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی انسانی حقوق مرکز کے مطابق جمعرات کو اسرائیلی سپریم کورٹ نے بھی "بطن الھویٰ” کی آبادی کو وہاں سے ھجرت پرمجبور کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرقی بیت المقدس میں "بطن الھویٰ” وہ جگہ ہے جہاں سے جبری ھجرت کے بدترین مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو وہاں سے نکالا گیا۔ بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی جانب سے اعتراضات بھی عاید کیے گئے، کیونکہ انہیں دسیوں سال سے آباد گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔

بطن الھویٰ کو فلسطینی آبادی سے خالی کرانا القدس کو یہودیانے کے صہیونی منصوبوں کا حصہ ہے۔ اسرائیلی ریاست فلسطینی باشندوں کو پورے القدس سے نکالنے کے لیےسرگرم ہے اور بطن الھویٰ بھی اس کا حصہ ہے۔

جبری ھجرت کا منصوبہ

اسرائیلی سپریم کورٹ نے "بطن الھویٰ” کے فلسطینی باشندوں کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست مسترد کردی ہے جس میں عدالت سے اپیل کی گئی تھی وہ کالونی میں جبری ھجرت کے ظالمانہ ریاستی ہتھکنڈے کو روکنے کا حکم دے، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اسرائیلی سپریم کورٹ نے فلسطینیوں کی درخواست مسترد کرکے "عطیرت کوھنیم” یہودی تنظیم کے توسیع پسندی کے پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کردیا ہے جس کے تحت یہ تنظیم "بطن الھویٰ” سے 700 فلسطینیوں کوزبردستی بے دخل کرنا چاہتی ہے۔

اسرائیلی عدالت نے بدھ کے روز جاری ہونے والے بیان میں کہا ہےکہ فلسطینیوں نے جس اراض پر مکانات تعمیر کیے ہیں وہ 1948 میں یہودیوں کی ملکیت تھی۔ عدالت نے یہ فیصلہ کئی دوسرے سوالات کے باوجود دے دیا ہے جو یہودی تنظیم کی جانب سے دائر کردہ دعوے پر اٹھائے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ "عطیرت کوھنیم” نامی یہودی گروپ القدس کو یہودیانے کے لیے سرگرم ہے۔ اس گروپ نے عدالت کو درخواست دی تھی کہ وہ "بطن الھویٰ” سے فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی کا حکم جاری کرے۔ صہیونی گروپ کی طرف سے دعویٰ‌کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کےقبضےمیں‌موجود اراضی 120 سال قبل یہودیوں کی ملکیت تھی اور اس پر اب فلسطینیوں‌ نے 70 مکانات تعمیر کررکھے ہیں۔

نسلی امتیاز

اسرائیلی انسانی حقوق مرکز”بتسلیم” کی رپورٹ میں‌بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسلی امتیاز کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک جبری ھجرت کا حربہ بھی شامل ہے۔ اسرائیل طاقت کے ذریعے مشرقی بیت المقدس پر اپنی بالادستی قائم کرنے کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لیے فلسطینیوں‌کو جبرا بے دخل کیا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق گروپ کے مطابق صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کے سیکڑوں دونم رقبے پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں 12 یہودی کالونیاں قائم ہیں۔

اسرائیلی انسانی حقوق گروپ کے مطابق پرانے بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کے لیے 140 کثیرالمنزلہ عمارتیں قائم کی گئی ہیں  جن میں 2800 یہودی بسائے گئے ہیں۔ ان کے اطراف یں 3 لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی