چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیل سے تعلقات ۔۔۔۔ عربوں کو کیسے روکا جائے؟

جمعہ 30-نومبر-2018

چند ہفتے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے خلیجی ریاست سلطنت اومان کا دورہ کیا اور اومانی فرمانروا سلطان سعید بن قابوس سے ملاقات کی۔ اس واقعے کے بعد ایسے لگ رہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کے لیے عرب اور مسلمان ممالک کے دارالحکومتوں کا اعلانیہ دورے کا در کھل گیا ہے۔ اگرچہ عرب اور مسلمان ممالک کے عوام کی جانب سے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے مگر یہ بات باعث تشویش ہے کہ عرب دنیا کے حکمران گویا صہیونی ریاست کی طرف لپکے چلے آرہے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کی دوڑ دھوپ صہیونی ریاست کے جرائم کو نظر انداز کر کے کیسے روکی جا سکتی ہے۔ ایک طرف صہیونی ریاست غزہ کی پٹی، غرب اردن اور بیت المقدس میں صہیونی ریاست کھلے عام جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ صہیونی ریاست کے ان جرائم میں عرب اقوام، ان کے منتخب نمائندگان، دانشور اور رائے عامہ کا کیا کردار ہے اور یہ سب صہیونی ریاست کے جرائم کے خلاف کیا کر سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

درکار جدو جہد

اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے عوامی مہم کے رابطہ کار خالد منصوور نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "یہ امر ناگزیر ہے کہ قضیہ فلسطین تمام عرب اور مسلمان ممالک، آزاد دنیا اور زندہ ضمیر انسانیت کے ہاں ایجنڈے میں سر فہرست رہنا چاہیے۔ اس حوالے سے عرب ممالک کے حکمرانوں کی اپیلوں، بیانات اور مطالبات پر کان دھرنے کی اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ حکمران صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں قضیہ فلسطین سے خاطر خواہ دلچسپی نہیں اور نہ ہی فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق کے حوالے سے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کررہے ہیں۔

خالد منصور نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عرب ممالک کی اقوام، ان کے زندہ ضمیرلوگ اور بائیکاٹ کمیٹیاں فلسطینی قوم کی معاونت اور مدد کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہیں۔ انہیں پوری قوت کے ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ حکومتوں کے تعلقات کے استوار کرنے کی راہ روکنا ہوگی۔

انہوں‌ نے کہا کہ اس وقت عرب ممالک صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کےقیام کے لیے ہانپے جا رہے ہیں۔ ان کی یہ ساری دوڑ دھوپ قضیہ فلسطین کے لیے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ ایسا کرنا عرب ممالک کے امن اقدام کے حوالے سے اجماع کے بھی خلاف ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی راہ روکنے کے لیے عرب اقوام، یونینز، پیشہ ور تنظیموں، دانشوروں، مصنفین اور صحافیوں کوایک صف میں کھڑے ہو کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

خالد منصورنے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کی دوڑ کے دوران سلطنت اومان اور کویت میں سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کی کھل کر مخالفت کی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ خلیجی ممالک تیونس کے نقش قدم پر چلیں جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کو جرم قرار دیا ہے۔

عوامی طاقت پر انحصار

اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ مہم کے رکن حیدر عید نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے حوالے سےعوامی فیصلوں پر انحصار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کی اقوام صہیونی ریاست سے دوستی کے خواہاں نہیں۔ عوام کو حکومتوں پر دبائو ڈالنے کے لیے باہر نکلنا ہوگا۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حال ہی میں عرب اسٹڈی سینٹر کی جانب سے رائے عامہ کا ایک جائزہ لیا گیا جس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کا سوال پوچھا گیا گیا تھا۔ اس سروے میں 87 فی صد عوام نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی مخالفت کی۔ عوام کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام سے قضیہ فلسطین کو غیر معمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

عید نے عرب ممالک کے عوام پر زور دیا کہ وہ صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے جاری مہمات اور تحریکوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں۔ بی ڈی ایس تحریک کو کامیاب بنائیں۔ حال ہی میں سلطنت اومان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے خلاف مہم کا افتتاح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اردن اور مصر میں بھی بائیکاٹ تحریک شروع کر دی گئی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی