گذشتہ 40 برس بالخصوص 1978ء سے اب تک صہیونی ریاست عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتی رہی۔ چند ایک ممالک نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کے اقدامات کیے اور مگرمجموعی طورپر عرب اقوام نے آج تک صہیونی ریاست کو قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی کے لیے دن رات کوشاں عناصر کو اپنا سر ریت میں دینے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے عرب اقوام کے شعور بیداری کو نقب لگانے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں بری طرح ناکامی کا سامناکرنا پڑا۔
دوسری طرف اسرائیل نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کے سلسلے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی مگر اس کے جواب میں صہیونیوں کو زندہ ضمیر اور فلسطینیوں کے محبت میں دھڑکتے دل والے جذبات کے سوا کچھ نہیں ملا۔
اسرائیل اور یہودی لابی نے اپنے تمام ذرائع ابلاغ کو عرب اقوام کو مسخر کرنے کے گمراہ کن پروپیگنڈے میں مگن رکھا۔ صہیونی سرطان کے پھیلائو کی باتیں کی جاتیں مگر خود صہیونی فوجی جرنیلوں نے یہ بات تسلیم کی کہ عرب اقوام کے ساتھ دوستی کے نام نہاد دعوے سب جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
اسرائیلی اخبار’یدیعوت احرونوت’ نے دو فوجی جرنیلوں جنرل عاموس گیلاد اور اوڈی ابنٹل کے خیالات کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سی عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتی ہیں مگر وہ اپنے عوامی رد عمل سے خائف ہیں۔ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتی ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کا نظام عدم استحکام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ مصر اور اردن کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کے باوجود وہاں کے عوام صہیونی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
عرب اقوام اور ‘نارملائیزیشن’
اسرائیل کے تعلیمی اور ثفاقتی بائیکاٹ کے لیے سرگرم فلسطینی مہم کے سربراہ حیدر عید نے ‘مرکزاطلاعات فلسطین’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں دوحہ میں ایک سروے کا اہتمام کیا گیا۔ اس سروے کا سب سے پہلا اور اہم ترین سوال اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم کے قیام کے بارے میں تھا مگر سروے میں رائے دینے والے 87 فی صد عوام نے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات کے قیام کی مخالفت کی۔ سروے میں شامل رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے وہی حکومتیں دوستانہ مراسم قائم کرنا چاہتی ہیں جن کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ یہ حکومتیں دراصل امریکا کی آشیر باد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
سروے میں شہریوںنے اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے عالمی تحریکوں کو مزید موثر اور مربوط بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بی ڈی ایس،نارملائیزیشن مخالف قطر یوتھ، اردن میں بائیکاٹ تحریک اور مصر میں جاری بائیکاٹ تحریک کو مزید موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
مایوسی صہیونیوں کا مقدس
بیرون ملک فلسطین کانفرنس کے سیکرٹری جنرل منیر شفیق نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں 30 مارچ سے جاری تحریک حق واپسی نےقضیہ فلسطین پر عالمی رائے عامہ پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم کےقیام کے خواہاں لوگوں اور صہونیوں کو مایوسی کے ساتھ کچھ نہیں ملے گا۔
حال ہی میں عالمی علماء کونسل کے چیئرمین احمد الریسونی نے حماس کےسیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو بھیجے گئے ایک مکتوب میںلکھا کہ عرب اقوام صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کی ہرطرح کی شکل کی مخالفت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کےقیام کا مطلب فلسطینیوں پر صہیونی ریاست کے مظالم کی حمایت کرنا ہوگا اور عرب ممالک کی عوام ایسا کبھی نہیں کریں گی۔
خلیج عرب نے نارملائزیشن مسترد کردی
صہیونی ریاست نے عرب ممالک کی اقوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر کئی عشرے بیت جانے کے بعد بھی اسرائیل کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوسکا۔
اسرائیل نے خلیجی ممالک کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کی مگر خلیجی عرب ممالک کے عوام نے بھی صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی مسترد کردی۔
کویتی تجزیہ نگار عبداللہ الموسوی کا کہناہے کہ عرب ممالک کی اقوام نہ صرف اسرائیل کے ساتھ دوستی کے قیام کے خلاف ہیں بلکہ ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں گے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل سے تعلقات کا قیام قضیہ فلسطین کے زوال، فلسطینیوں کی قربانیوں کے زوال اور فلسطینی مزاحمت کی کمزوری کا سبب بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم اس بات کی اجازت کسی کو نہیں دے گی کہ وہ اس کی قربانیوں اور حقوق کی قیمت پر صہیونی دشمن کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات استوار کرے۔
انہوں نے کہاکہ کویت وہ پہلا خلیجی ملک ہے جس کے عوام اور حکومت دونوں نے صہیونیوں کے ساتھ دوستانہ مراسم کی مذمت کی ہے۔