مقبوضہ بیت المقدس کا اسلام کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے۔ اسی شہر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفرمعراج کا آغاز کیا اور یہ شہر ‘مسریٰ رسول’ کہلایا۔ فلسطین کا ابدی دارالحکومت اور مسلم دنیا کا تہذیبی وثقافتی مرکز ہے۔
حال ہی میں ایک فلسطینی شہری نے رضوان عمرو نے مسجد اقصیٰ کی سیکیورٹی کے حوالے سے ماسٹر کلاس کا ایک مقالہ لکھا ہے۔ یہ مقابلہ مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنی نوعیت کی منفرد کاوش ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق رضوان عمرو القدس کے باشندے ہیں اور ان کا بچپن اور جوانی القدس اور مسجد اقصیٰ میں گذری۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر صہیونی ریاست کے غیرانسانی سلوک اور تشدد کو دیکھا اور آج تک دیکھ رہےہیں۔ مسجد اقصیٰ کے پہرے دار کس طرح اپنی ذمہ داریاں انجام دیتےہیں؟ انہیں کس نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے رضوان عمرو نے بتایا کہ اس نے ابتدائی تعلیم مسجد اقصیٰ سے متصل ایک پرائمری اسکول سے حاصل کی اور مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم حفظ کیا۔ یہیں پر ان کا نکاح پڑھا گیا۔ انہوںنے حال ہی میں جب ایم اے کلاس کے مقالے کا سوچا تو ان کے ذہن میں قبلہ اول کی سیکیورٹی کے موضوع کا تخیل پھوٹا۔
انہوں نے ‘مسجدا قصیٰ کی سیکیورٹی و سلامتی’ کے موضوع پر مقالہ لکھا جسے حال ہی میں بحث کے لیے ماہرین تعلیم کے سامنے پیش کیا گیا۔ مقالے پر بحث کرنے والے ماہرین کی کمیٹی میں الشیخ ناجح بکیرات، یوسف النتشہ، ابراہیم ابوجابر مسجد اقصیٰ کے الاشرفیہ محراب میں بیٹھ کر بحث کررہے ہیں۔
تاریخی ریکارڈ اور دستاویزات
بیت المقدس کےنوجوان دانشور رضوان عمرو نے اس مقالے کے حوالے سے پہلے مرحلے میں مسجد اقصیٰ میں ریکارڈ اور مخطوطات مرکز کےڈائریکٹرالشیخ ناجح بکیرات سے تبادلہ خیال کیا۔ ان کاکہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ ڈائریکٹر اور ان کے ساتھ آنےوالوں کو قبلہ اول میں داخلے کےدوران سخت نوعیت کی پابندیوں کا سامنا رہتا ہے مگر عمرو کاکہنا ہے کہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ مقالے کی تیاری کے دوران اسے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت قبلہ اول میں گذارنے کا موقع ملا۔
ایک سوال کے جواب میں رضوان عمرو نے کہا کہ اسے مقالہ تیار کرنے میں چھ سال لگے۔ اس دوران انہوںنے مسجد اقصیٰ اور القدس کے سابقہ ریکارڈ اور دستاویزات کا مطالعہ کیا۔ تاکہ وہ ابو دیس یونیورسٹی میں ایم اے کلاس میں اپنا مقالہ تیار کرسکیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقالہ تین ابواب پر مشتمل اور 190 صفحات اور 105 مرکزی اور ذیلی عنوانات شامل ہیں۔ اس یں مسجد اقصیٰ کے تاریخی احوال کے ساتھ 45 ہزار 600 تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ مقالے کی فہرست میں 1 لاکھ 6000 تصاویر اور تاریخی ریکارڈ موجود ہے۔ مقالے کی تیاری کےلیے عربی، عبرانی اور انگریزی زبانوں کے 45 ماخذ اور مصادر سے استفادہ کیا گیا۔
اہم مراحل
رضوان عمرو نے بتایا کہ انہوں نے اپنے مقالے میں مسجد اقصیٰ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ صہیونی ریاست کی قبلہ اول کے خلاف یلغار کو موضوع بنایا گیا۔ انہوںنے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور یہودی آباد کار کس طرح قبلہ اول کےلیے خطرہ اور مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کی عبادت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی سیکیورٹی کےحوالے سے مقالے کی تیاری کے دوران ان کی مسجد اقصیٰ میں نمازیوں، مرابطین اور علماء کرام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔
انہوںنے مسجد اقصیٰ کی سیکیورٹی کے موضوع پر تفصیلات مختلف مراحل میں 1948ء سے 2000 کے دور کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سنہ 1967ء کے بعد قبلہ اول کے حوالے سے صہیونی ریاست کی پالیسی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔