جنوبی امریکا کے ملک وینز ویلا میں 23 جنوری کو اپوزیشن لیڈر اور پارلیمنٹ کے اسپیکر خوان گوائیڈو نے خود کوعبوری صدر قرار دیتے ہوئے منتخب صدر نیکولس ماڈورو کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو باغی لیڈر کی حمایت میں پہل کرنے والوں میں اسرائیل بھی شامل تھا۔ اسرائیل نے ایسا کیوں کیا؟ اس خبر میں اسی سوال کا جواب موجود ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے وینز ویلا میں کاروباری مراکز ہیں اور اس تنظیم کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد وینز ویلا میں موجود ہے۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ وہ وینز ویلا میں کسی ایسے لیڈر کی حمایت کرے جو اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کے جذبات رکھتا ہو اور اس کی مدد سے وینز ویلا میں حزب اللہ کے نیٹ ورک کو توڑنے اور تنظیم کے حامیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاسکے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ وینز ویلا اور اسرائیل کے درمیان گذشتہ دو عشروں سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ اسرائیل اس لیے بھی صدر نیکولس ماڈورو کے خلاف بغاوت کا حامی ہے کہ انہوں نے عالمی سطح پر صہیونی ریاست کے جرائم کو بے نقاب کرنے اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی جرات مندانہ انداز میں آواز اٹھائی ہے۔
مصر میں اسرائیل کے سابق سفیر اسحاق لیفانون کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور وینز ویلا ایک دوسرے کو دشمن ملک خیال کرتے ہیں۔ یہی دشمنی تل ابیب کو وینز ویلا کے اپوزیشن لیڈر کی حمایت کی ترغیب دلاتی اور اس کا موقع فراہم کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وینز ویلا میں حکومت کی تبدیلی اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ ان کا کہنا تھا ہمیں انتظار کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا صدر نیکولس ماڈورو اور گوائیڈو کے حامیوں کے درمیان محاذ آرائی کیسے آگے بڑھتی ہے۔
اسرائیلی سفیر نے کہا کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف عوام نے بغاوت کی تو انہوں نے طاقت کے ذریعے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر فوج نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ عوام نے تحریر اسکوائر میں دھرنا دیا اور صدر حسنی مبارک کو عوام کے سامنے جھکنا پڑا۔ اسی طرح اگر وینز ویلا کا دارالحکومت کراکس میدان تحریک بن جائے تو اس کے بعد کیا ہوگا۔ کیا وینز ویلا کی فوج عوام پر گولی چلائے گی یا عوام کا ساتھ دے گی۔