جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیلی جارحیت کو ’جھڑپیں‘ کہنے والے مغربی میڈیا کی حقیقت

ہفتہ 8-اپریل-2023

اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کے خلاف بلا روک ٹوک بربریت کا ارتکاب کر رہی ہے اور مغربی کارپوریٹ میڈیا انہیں محض ’جھڑپوں‘ سے تعبیر کر رہا ہے۔

نام نہاد ’جھڑپوں‘ کا تازہ ترین دور اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی پولیس نے مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے موقع پر یروشلم کی مسجد اقصیٰ میں فلسطینی نمازیوں پر بار بار حملے کیے۔

اسرائیلی فورسز نے ایک بار پھر ربڑ کی گولیوں، لاٹھیوں، اسٹن گرنیڈز اور آنسو گیس کے استعمال سے سینکڑوں فلسطینیوں کو گرفتار اور زخمی کیا ہے۔ بدلے میں پولیس کو معمولی چوٹیں آئی ہیں، اور اسی دوران غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں نے مسجد میں گھسنے کی کوشش بھی کی۔

اسرائیل عزائم سے صاف ظاہر ہے کہ وہ تشدد کو یروشلم تک محدود نہیں رکھنا چاہتا اس کا ثبوت وہ میزائل حملے ہیں جو غزہ کی پٹی اور جنوبی لبنان پر کیے گئے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ فلسطینی، بن یامین نیتن یاہو کی فوجوں کے نشانے پر ہیں، میڈیا کی جانب سے ’اسرائیل فلسطینی جھڑپیں‘ جیسی پُر فریب اصطلاحات نے اس حقیقت کو دھندلا دیا ہے کہ جارح اسرائیل کو کمزور فلسطینیوں کے مقابلے میں جدید جنگی ٹیکنالوجی کی برتری حاصل ہے، جس کی بدولت وہ نسبتاً بڑے پیمانے پر اپنے مقابل کو جانی نقصان پہنچا رہا ہے۔

میڈیا کے اس رویے نے اس حقیقت کو بھی دھندلا دیا ہے کہ فلسطینیوں کا ردعمل پچھتر سال سے جاری اس اسرائیلی پالیسی کے جواب میں ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں سے ان کی زمین ہتھیا لی گئی، ان کی نسلی کُشی کے لیے وقفے وقفے سے ان کا قتل عام جاری ہے۔

2014 میں غزہ کی پٹی میں 551 بچوں سمیت 2251 افراد کا قتل ہوا۔

دسمبر 2008 میں شروع ہونے والے 22 روزہ ’آپریشن کاسٹ لیڈ‘ کے دوران غزہ میں تقریباً 1400 فلسطینیوں کی جان لی گئی جب کہ اس دوران فقط تین اسرائیلی شہری مارے گئے اور اس غیر متوازن بلکہ یک طرفہ جنگ کو بھی میڈیا نے ’جھڑپوں‘ سے تعبیر کیا۔

2018  ہی میں غزہ کی سرحد پر احتجاج کے جواب میں اسرائیلی فوج نے سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک اور ہزاروں کو زخمی کیا اور اس کو محض ’جھڑپوں میں اضافہ‘ بتایا گیا۔

مئی 2021 میں ’آپریشن گارڈین آف دی والز‘ کے عنوان سے 11 روزہ اسرائیلی جارحیت میں 260 سے زیادہ فلسطینی مارے  گئے، جن میں سے تقریباً ایک چوتھائی بچے تھے۔ مگر اس درندگی کو بھی ’مسجد اقصیٰ میں جھڑپیں‘ کا عنوان دیا گیا۔

یقیناً اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کو ’جھڑپوں‘ کے طور پر رپورٹ کرنے کے جنون کی کوئی اخلاقی بنیاد تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ کوئی بھی شخص شکاری کی بندوق کا نشانہ بن جانے والے ہرن کی ہلاکت کو ’جھڑپ‘ کا نام نہیں دے گا۔ اور نہ ہی کوئی 2015 میں امریکا کی جانب سے قندوز (افغانستان) کے ہسپتال پر ہلاکت خیز بمباری کو ’چھڑپوں‘ سے تعبیر کرے گا۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ اس واضح غیر اخلاقی عمل کے باوجود مغربی میڈیا کا اسرائیلی بیانیہ کے دفاع میں فلسطینیوں سے تعصب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس میں سے زیادہ تر کا تعلق امریکا کی پُرجوش پشت پناہی سے ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کے اُس نقطہ نظر کے دفاع میں جس کے تحت وہ مظلوموں کا شکار اور انہیں ذبح کرتا ہے۔

 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے دوران دنیا نے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام اور 500 سے زیادہ فلسطینی دیہاتوں کو تباہ ہوتے دیکھا، مگر شاید یہ بھی ’ایک بڑا تصادم‘ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ فلسطینیوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کے لیے اسرائیل کی طویل مدتی پروپیگنڈہ مہم میں میڈیا فریق کا کردار ادا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر رواں سال فروری میں نیویارکر میگزین کے لارنس رائٹ نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کی جس میں اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی رضاکار کو لاتوں گھونسوں سے بری طرح پیٹ رہے تھے، مگر لارنس رائٹ نے اس ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ ’اسرائیلی فوجی اخلاقی انحطاط اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں جب تک فلسطینیوں کو حقیقتاً انسان بننے کا موقع نہیں ملتا‘۔ گویا ’وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا۔

اب جیسا کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز یروشلم اور غزہ میں غیر انسانی رویہ اپنائے ہوئے ہیں مغربی میڈیا کی جانب سے ’جھڑپوں‘ کی اصطلاح یہ جھوٹ پھیلانے کے لیے ہے کہ ہنگامہ دراصل دو مساوی فریقوں کے درمیان مقابلہ ہے۔

کون نہیں جانتا کہ  اگست 2022 میں غزہ پر اسرائیلی فوج کے تین روزہ حملے میں 16 بچوں سمیت کم از کم 44 فلسطینی شہید ہوئے تھے، یہ مئی 2021 میں ہوئے ’آپریشن گارڈین آف دی والز‘ کے بعد سب سے خونریز واقعہ تھا، اگست کے اس واقعے کے نتیجے میں اسرائیلی ہلاکتیں ’صفر‘ تھیں مگر اس کے باوجود اس نسل کشی کو بھی غیر اہم خبروں کے درمیان ’جھڑپوں‘ کا نام دیا گیا۔

بہ شکریہ ویب گاہ: وی نیوز

لینک کوتاه:

کپی شد