حالیہ چند ایام میں غزہ کی پٹی سے داغے گئے میزائلوں سے دو بار صہیونی ریاست کا نام نہاد دارالحکومت تل ابیب لرز اٹھا۔ 25 مارچ بہ روز سوموار کو غزہ کے عوام نے آنکھ کھولی تو نہیں ہر طرف یہ خبر سننے کو ملی غزہ سے داغے گئے دو میزائل اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں گرے جس کے نتیجے میں 7 صہیونی زخمی ہوگئے۔ میزائل حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ کی بری اور بحری ناکہ بندی کر دی اور تمام گذرگاہوں پر آمد ورفت روک دی۔
غزہ کی پٹی میں کسی فلسطینی گروپ کی طرف سے آخری اطلاعات تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ اسرائیلی میڈیا میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ سے داغے گئے میزائل 100 کلو میٹر دور جا گرے جس کے نتیجے میں متعدد مکانات تباہ ہوگئے۔ اسرائیلی حکومت نے اربوں ڈالر کی مالیت سے میزائل شکن نظام جگہ جگہ نصب کر رکھا ہے مگر ‘آئرن ڈوم’ نامی یہ سسٹم بھی ناکام رہا۔
تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟
فلسطینی تجزیہ نگار اور دانشور عماد ابو عواد جو القدس اسٹڈی سینٹر میں اسرائیلی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ سے سوموار کے روز شمالی تل ابیب پر میزائل حملہ اچانک اور حیران کن ہے۔ اگرچہ غزہ کی سرحد پر کشیدگی اور جزیرہ نما النقب میں فلسطینی اسیران پر ڈھائے جانے والے مظالم ان میزائل حملوں کا سبب ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ریاست کی ناکہ بندی بھی فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کا سبب ہے۔ یہ میزائل حملے اس بات کا اشارہ ہیں کہ آنے والا وقت کافی کشیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ سے میزائل حملوں کے بعد اسرائیل بعض اہم امور کی طرف توجہ مرکوز کرے گا۔ کچھ احتیاطی تدابیر کے طور پر آئرن ڈوم کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملے بھی متوقع ہیں۔
اگر اسرائیل غزہ پربمباری شروع کرتا ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگ کتنی طول پکڑے گی اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اسرائیل کی طرف سے جنگ مسلط کیے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ تاہم اسرائیل میں آنے والے دنوں میں ہونے والے انتخابات جنگ ٹال بھی سکتے ہیں۔
علاقائی اور عالمی سطح پر بعض حلقے غزہ میں جنگ روکنے کے لیے حرکت میں آئیں گے کیونکہ موجودہ حالات میں اگر جنگ ہوتی ہے تو امریکا کی طرف سے صدی کی ڈیل کا نام نہاد منصوبہ آگے نہیں بڑھایا جاسکے گا۔
سنجیدہ سوالات
دانشور عدنان ابو عامر نے کہا کہ غزہ سے اسرائیلی دارالحکومت پر میزائل حملے سے بعض سنجیدہ نوعیت کے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اسرائیلی فوج اور عسکری حلقوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں یہ بحث جاری ہے کہ آخر صہیونی انٹیلی جنس ادارے کیوں یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ غزہ سے میزائل حملے کرنے والا گروپ کون ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست یہ کیوں نہیں سوچتی کہ غزہ کی پٹی پر دبائو بڑھانے اور ناکہ بندی کا سلسلہ جاری رکھنے سے امن کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔
اس کے علاوہ اسرائیل کا آئرن دوم سسٹم کیوں کر ناکام ہے اور ایک ماہ میں دوسری بار فلسطینی میزائل صہیونی دارالحکومت تک کیوں کر پہنچ گئے؟ اس کے علاوہ اگر جنگ چھڑتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا اور وہ جنگ کتنا عرصہ مزید جاری رہے گی؟
ابو عامر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب آسان نہیں۔ غزہ سے تل ابیب پر میزائل حملوں نے صہیونی عسکری اداروں کو مایوسی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ جواب میں غزہ پر کسی بھی قسم کی جارحیت کرسکتے ہیں۔