فلسطینی تجزیہ نگاروں کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالی بحران سے گزر رہی ہے۔ ہر آنے والے دن فلسطینی اتھارٹی کا مالی بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ مالی بحران سے نکلنے کے لیے اتھارٹی نے سادگی اور کفایت شعاری کا نیا نعرہ لگایا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کرپشن میں مبتلا فلسطینی اتھارٹی کو سادگی اور کفایت شعاری کے نعروں کا عملا کوئی فائدہ پہنچے گا یا یہ نعرہ بھی ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو مالی بحران سے نکلنے کے لیے ٹھوس نوعیت کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سنہ 1994ء اور اس کے بعد کی گئی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔ سنہ 1994ء میں فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں پر انحصار کر کے ایک بڑی غلطی کی تھی جس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کو آج مالی بحران کا سامنا ہے۔
بدانتظامی نے بحران میں اضافہ کیا
غزہ میں جامعہ الازھر کے اکنامک کالج کے ڈین معین رجب نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے مالی بحران کی ایک بڑی وجہ بد انتظامی ہے۔ اسرائیل گذرگاہوں پر صہیونی انتظامیہ جو ٹیکس جمع کرتی ہے اس کا ایک بڑا حصہ فلسطینیوں کو دیا جاتا رہا ہے مگر اب فلسطینی اتھارٹی نے یہ رقم دینا بند کر دی ہے۔ اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی خود بدانتظامی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو درپیش معاشی بحران کی وجوہات میں ایک کلیدی وجہ بد انتظامی ہے۔ بد انتظامی نے فلسطینی اتھارٹی کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیا اور اسے معاشی بحران سے دوچار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1994ء میں فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کا کنٹرول سنھبالا اور اخراجات کا دائرہ وسیع کر دیا مگر اس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کومزید مالی مشکلات سے دوچار کر دیا۔
بدانتظامی اور کمزور حکومت
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس وقت فلسطینی قوم کے نظام زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ فلسطین کے سیاسی اور اقتصادی دھاروں پر صہیونی ریاست نے قبضہ جما رکھا ہے۔ اب اگلے مرحلے میں اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو مزید بلیک میل کرنا شروع کر رکھا ہے۔
معین رجب کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اسیران اور شہداء کے خاندانوں کے الائونسز کو بند کرنا فلسطینیوں کے اندرونی امور میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے اور ناقابل قبول ہے۔ یہ سب کچھ فلسطینی اتھارٹی کی انتظامی کمزوریوں کا نتیجہ ہے جو فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت ملازمین کی تن خواہیں بہت معمولی ہیں اور فلسطینی اتھارٹی کے پاس متبادل انتظام کے کئی آپشن ہو سکتے ہیں۔
قرض، کرپشن اور مالی کمزوری
معین رجب کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو بجٹ خسارہ شروع سے درپیش رہا ہے اوراسے دور کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی نے کبھی بیرونی قرضوں کا سہارا لیا اور کبھی کوئی دوسرا طریقہ اپنایا۔
فلسطینی اتھارٹی کا خیال تھا کہ قرض کی رقم سے اس کے مسائل حل ہوجائیں گے مگر یہ محض خام خیالی تھی۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔
فلسطینی دانشور کا کہنا ہےکہ بدانتظامی کی وجہ سے ٹیکسوں کے حصول سے راہ فرار اختیار کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی سے فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ ٹیکس نادہندگان اثرورسوخ رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض فیصلہ ساز اداروں میں موجود ہیں۔
غیر ملکی امداد
فلسطینی اتھارٹی کو بیرون ملک سے ملنے والی امداد کا حجم 36 ارب 50 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ یہ امداد سنہ 1994ء کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو ملتی رہی ہے۔ سنہ 2017ء کے بعد ملنے والی امداد اس میں شامل نہیں۔ اس کےعلاوہ فلسطینی اتھارٹی نے 1 ارب 60 کروڑ ڈالر قرض لیا جب کہ 16 ارب 50 کروڑ ڈالر امداد نقد کے علاوہ دیگر مدات میں دی گئی۔
جہاں تک اسرائیل کی طرف سے ماہانہ ٹیکس کٹوتی کی رقم کا تعلق ہے تو اس کا حجم 199 ملین ڈالر ہے اور سنہ 2018ء میں اس کا کل حجم 2 ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ٹیکسوں کی رقم کو اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کررہا ہے۔