شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کو پہلے کیا مشکلات درپیش تھیں خانہ جنگی نے ان کی زندگی کا ہر سکون ان سے چھین لیا ہے ہزاروں کی تعداد میں مریض فلسطینی پناہ گزینوں کو علاج معالجے کی کوئی سہولت میسر نہیں سیکڑوں سرطان جیسے موذی امراض کا شکار ہونے کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امراض کا شکار فلسطینی پناہ گزین اپنی املاک فروخت کر کے علاج کے لیے چند ہزار ڈالرحاصل کرتے ہیں۔
ترکی میں مقیم ایک فلسطینی پناہ گزین محمد تعمری نے بتایا کہ وہ شام کے دارالحکومت دمشق میں "دمر” کے مقام پر ایک کیمپ میں تھا۔ اس کا ایک بھائی کینسر کا شکار ہو گیا اور علاج کے لیے اسے گھر کے برتن تک فروخت کرنا پڑے۔
تعمری کا مزید کہنا تھا کہ جب میرا بھائی بیماری کا شکار ہوا تو ہمارے پاس اس کے علاج کے لیے گھر کا سامان فروخت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
ھجرت کی تاریخ سے علاج
ایک فلسطینی پناہ گزین ابو ریاض نے بتایا کہ وہ سنہ 1967ء کی جنگ میں فلسطین سے ھجرت پر مجبور ہوا۔ اس کے بعد اس کا واستہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونروا’ کے ساتھ پڑا جس کی ڈسپنسریوں سے پیرا سٹامول، انفیکشن کی گولیوں اور عطائی قسم کے ڈاکٹروں کے سوا کچھ نہیں۔
ابو ریاض نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ معدے میں السر کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوا۔ اسے علاج کے بدلے 1200 ڈالر ادا کرنا پڑے اور اس دوران اونروا کی طرف سے اسے 100 ڈالر سے زیادہ کی مدد فراہم نہیں کی گئی۔
انہوںنے بتایا کہ سنہ 1967ء کی جنگ میں ھجرت کرنے والے فلسطینیوں کےساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ‘اونروا’ ایجنسی ان فلسطینیوں کو پناہ گزین تسلیم کرنے گریزاں ہے۔ اونروا کی امتیازی پالیسی کے تحت 1948ء کی جنگ میں فلسطین سے نکالے گئے فلسطینیوں کو مہاجر تسلیم کیا جاتا ہے۔
"اونروا” کی معاونت اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر
فلسطینی سماجی کارکن فاطمہ جابر نے “قدس پریس” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فلسطینی پناہ گزینوں کی طرف سے سیکڑوں درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ ایسے مریض فلسطینی پناہ گزین بھی ہیں جن کے پاس آپریشن کے لیے کیا ایک وقت کی دوائی لینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کو دوائی کے 50 فی صد اور اسپتال کے 50 فی صد اخراجات مل جاتے تھے۔ مگر ان پچاس فی صد سے تمام فلسطینی پناہ گزین مریضوں کے لیے علاج کی سہولت حاصل کرنا مشکل ہے۔ بعض مریضوں کے علاج پر 1000 ڈالر سے زاید اخراجات ہوتے ہیں اور وہ علاج کے لیے عطیات کی اپیل پر مجبور ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اونروا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کے علاج کے لیے جو امداد فراہم کی جاتی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔