جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل بگڑا ہوا امریکی بچہ جس نے بدمعاشی کی تمام حدیں پار کردیں

ہفتہ 18-مئی-2024

دنیا کے تمامممالک میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جو فرائض اور ذمہ داریوں اور اقدار، معیارات،انسانی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کے احترام کے حوالے سے اسرائیل جیسا غیرمعمولی سلوک کیا جاتا ہو۔

فلسطینی مصنف اورمحقق اسامہ ابو ارشید کا خیال ہے کہ اسرائیل کو حاصل ہونے والا یہ "استثنیٰ”دنیا کی سپر پاور امریکہ جو بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین سے بالاتر ہےکو بھیحاصل نہیں۔

ان کا مزید کہناہے کہ اسرائیل ہر بین الاقوامی معاہدے، کنونشن ، اعلامیے اور قرارداد کی خلاف ورزیکرتا ہے، اس پختہ یقین کی بنیاد پر کہ اسے یہ سب کرنے کا حق ہے۔جو بھی اس”استحقاق” کو چیلنج کرنے کی جرأت کرتا ہے وہ خود کو نشانہ بنائے جانےاور مسخ کیے جانے کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اس سب کے لیے امریکہ خود اسرائیل کا سرپرستاور محافظ ہے۔

مغرور اور بدمعاشریاست

ابو ارشید کا خیالہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد اردان نے گذشتہ جمعہ کو جو کچھ کیا اسمیں کوئی تعجب کی بات نہیں، جب اس نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کے پوڈیم کے پیچھےکھڑے ہو کر اس کے ارکان کو دھمکی دی۔ کیونکہ ان کی اکثریت نے فلسطینی ریاست کیاقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے  ووٹ دیا۔ اسقرارداد کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کا حق حاصل ہے۔

ارشید نے اسرائیلی سفیرکے کچھ الفاظ کا حوالہدیا جس میں اس نے کہا کہ "یہ ناگوار ہے۔ آپ دہشت گردوں کے زیرکنٹرول ریاست کو ریاستی حقوق دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارےدرمیان ’داعش‘ اور بوکو حرام جیسے گروپوں کی نمائندگی کرنے والے موجود ہیں۔

اسرائیلی مندوب نےاس کے "ہیڈ کوارٹر” میں اقوام متحدہ کی توہین کی جب اس نے رکن ممالک کےنمائندوں پر اقوام متحدہ کے چارٹر کو پھاڑنے کا الزام لگایا۔ علامتی اشارہ تھا مگراردان خود اقوام متحدہ کےچارٹرکو چارک کرکا ہے۔

معطل فیصلے

فلسطین پر اسرائیلیتسلط کے بعد سات دہائیوں کے دوران اسرائیل کو ترجیحی سلوک ملا ہے جس نے اسے اپنےخلاف جاری کیے گئے فیصلوں کے خلاف "استثنیٰ” حاصل رہا ہے۔

ان قراردادوں میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181 آف 1947 جسے "تقسیم کا قانون”کہا جاتا ہے یروشلم اور بیت المقدس کو بین الاقوامی سرپرستی میں رکھتے ہوئے فلسطینیاراضی کو عرب ریاست اور یہودی ریاست میں تقسیم کرنے کی منظوری دی۔

سلامتی کونسل کیقرارداد نمبر 242 مجریہ 1967ء میں اسرائیل سے 1967 کی جنگ سے قبل سرحدوں پر پیچھےہٹنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سلامتی کونسل کیقرارداد نمبر 252 1968ء میں اسرائیل کی طرف سے یروشلم کی قانونی حیثیت کو تبدیلکرنے کے لیے کیے گئے تمام اقدامات جیسے کہ اراضی اور املاک کو ضبط کرنے کو غلطقرار دیا گیا اور اسے فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

سلامتی کونسل کیقرارداد نمبر 452 مجریہ1979ء میں اس نےاعلان کیا کہ مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری غیر قانونی ہے اور یہ کہ یروشلم کیقانونی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

سلامتی کونسل کی2024 کی قرارداد نمبر 2728 کی طرف رہ نمائی جس میں غزہ کے خلاف اسرائیل کی طرف سے مسلطکی جانے والی جنگ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ معلوم ہے کہاسرائیل نے ان میں سے کسی بھی قرارداد پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی اس کی مذمت کرنےوالی درجنوں دیگر قراردادوں پر عمل کیا ہے۔ مصنف ابو ارشید نے اسی کی طرف اشارہکرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر اب تک اقوام متحدہ کے چارٹر کو بغیرکسی روک ٹوک اور جوابدہی کے روزانہ پھاڑ رہا ہے۔

مخالفین سے خیانت

ابو ارشید نےمزید کہا کہ اسرائیل اپنے دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ معاملات میں جس تکبر کے ساتھبرتاؤ کرتا ہے وہ "استحقاق” کی منطق پر مبنی قرار دیتا ہے جو اس کے قیامکے پہلے دن سے ہی اس کے ضمیر میں بسی ہوئی ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ اسرائیل اپنے واضح طور پر نظر آنے والے جرائم، جیسے کہ وہ غزہ کی پٹی پرجاری تباہی کی وحشیانہ جنگ کی تمام تنقید کو "یہود دشمنی” کے تناظر میںسمجھتا ہے۔

اس نقطہ نظر سےفلسطینیدانشور کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی ادارےجیسے اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل اگر اسرائیل پر تنقید کرنے کی جرأت کرتے ہیںتو ان پر "یہود مخالف” ہونے کا الزام لگایا جائے گا۔

گزشتہ اپریل میںبائیں بازو کے امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہوپر تنقید کی اور غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کو یہود دشمنی کے ساتھ الجھانےکی ضرورت پر زور دیا۔

سینڈرز نے نیتن یاہوکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "یہ کہنا کہ آپ کی حکومت نے 6 ماہ میں 34000افراد کو ہلاک کیا یہ دشمنی نہیں ہے”۔

انہوں نے مزیدکہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی یونیورسٹیوں اور اسکولوں کی تباہی اور ان میں سے625000 کو تعلیم سے محروم کرنے کی مذمت کرنا یہود دشمنی نہیں ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ "یہ کہنا کہ آپ نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے، اس کے صحت کے نظام اور221000 گھروں کو تباہ کر دیا یہ دشمنی نہیں ہے۔”

مختصر لنک:

کاپی