ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے در ودیوار پر بنائے گئے خاکوں سے جہاں غزہ کے نوجوانوں اور ان کے اقارب کی امیدوں اور امنگوں کو اجاگر کیا گیا وہیں علاقے میں شہریوں کو درپیش مشکلات کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق علی الجبالی نے غزہ کے طول وعرض میں مسلسل 8 ماہ کی کاوششوں سے یہ خاکے اور آرٹ کے نمونے تیار کیے۔ ان میں زیادہ تر مغربی غزہ کے اطالوی آڈیٹوریم کے ملبے پر تیار کیے گئے۔ ان نمونوں میں محصورین غزہ کو درپیش 13 سال سے جاری مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

فلسطینی نوجوان آرٹسٹ نے اپنے فن پاروں کی نمائش کے لیے اپنے گھر کے قریب ایک بچوں کے اسکول کے گروائنڈ میں جگہ مختص کی گئی۔ بچوں کے کھولوں کی باقیات، بمباری سے گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں کی تباہی کے مناظر کو دیواروں پر بنائے گئے خاکوں سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فن پاروں کے ذریعے میں نے فلسطینی نوجوانوں کے پریشان کن حالات میں بھی جینے کی امید پیدا کرنے کا پیغام دیا ہے اوران سے کہا ہےکہ ملبے پر آرٹ کے نمونے بن سکتے ہیں تو غزہ کے محصورین کے لیے تباہی اور محاصرے سے باہر نکلنے کے لیے امید کے در بھی بند نہیں ہوئے ہیں۔

علی الجبالی پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہیں۔ ان کے تیارکردہ فن پاروں کو عوام الناس میں غیر معمولی پذیرائی ملی ہے۔
اس نے اپنے فن پاروں کے لیے دو الگ الگ حصے مقرر کیے ہیں۔ پہلےحصے میں 4 دیواروں پر انسان اور زمین کے رنگوں سے ملتے جلتے رنگ سے فلسطینیوں کے اپنے وطن اور بنیادی اصولوں پر استقامت دکھانے کا اظہار کیا گیا۔

