شنبه 16/نوامبر/2024

حافظہ قرآن مُعلمہ کی گرفتاری، فلسطینی اتھارٹی کا مکروہ کردار بے نقاب!

منگل 14-مئی-2019

فلسطین کے مقبوضہ  مغربی کنارے کے شمالی شہر قلقیلیہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت نام نہاد سیکیورٹی اہلکاروں نے جینصافوط میں واقع جامع مسجد عثمان بن عفان سے ملحقہ حفظ قرآن کے مدرسے پر چھاپہ مار کر وہاں پر بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے والی حافظ قرآن معلمہ اور قاریہ  آلاء بشیر کو حراست میں لے لیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی حکام کی اس کارروائی پرعوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں‌ کی بڑی تعداد نے عباس ملیشیا کے ہاتھوں حافظ قرآن معلمہ کی گرفتاری کو فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سیکیورٹی اداروں کے اخلاقی دیوالیہ پن کے مظہر کی زندہ مثال قرار دیا ہے۔

دوسری جانب  آلاء بشیر کے اہل خانہ نے اپنی بیٹی کی گرفتاری کے بعد انسانی حقوق کے اداروں سے اس کی زندگی بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی فریاد کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آلاء‌ کی گرفتاری عباس ملیشیا کے ہاتھوں انسانی حقوق کی  ہونے والی سنگین پامالیوں کا واضح ثبوت ہے۔

قومی اقدار کی توہین اور تذلیل

گرفتار کی جانے والی فلسطینی دو شیزہ آلاء‌ بشیر کے ایک قریبی عزیز محمود بشیر نے کہا کہ ایک حافظہ اور قاریہ کی عباس ملیشیا کے ہاتھوں ماہ صیام میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کی پاداش میں گرفتاری انتہائی شرمناک اور گھٹیا حرکت ہے۔ اس اقدام نے فلسطینی اتھارٹی کی قومی اقدار کی توہین اور تذلیل کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ماہ صیام میں ایک حافظہ کی گرفتاری قومی اور دینی اقدار کی توہین ہے۔

سابق فلسطینی اسیر محمد علان نے کہا کہ عباس ملیشیا کے ہاتھوں ایک عالمہ اورحافظہ کی گرفتاری، مسجد سے گرفتاری اور مسجد میں قرآن پاک پڑھانے کے جرم میں پکڑنا فلسطینی قوم ہی نہیں بلکہ دین کی توہین ہے۔

انہوں‌ نے لکھا کہ عباس ملیشیا کی طرف سے قرآن کریم ، ماہ صیام اور خواتین کا احترام نام کی کوئی چیز نہیں۔

شہری آزادیوں‌ پر قدغنیں

فلسطینی قانون دان مہند کراجہ نے بھی آلا بشیرکی گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آلاء کی گرفتاری چاہے مسجد سے ہو، گھر یا کسی اور جگہ سے وہ ہر اعتبار سے خلاف قانون ہے۔ اسے عدالت میں بھی پیش نہیں‌ کیا گیا اور اس کی گرفتاری کے لیے کسی عدالت سے اجازت بھی نہیں لی گئی۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ فلسطین میں عدالت اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔

خیال رہے کہ عباس ملیشیا کے 25 اہلکاروں‌ نے 9 مئی 2019ء کو 23 سالہ آلاء فہمی عبدالکریم بشیر کو مسجد عثمان بن عفان سے ملحقہ ایک دینی مدرسے حراست میں لیا۔ اس کی گرفتاری کی کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے۔ تاہم اس واقعے نے فلسطینی اتھارٹی کے قوم دشمن کردار کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی