اسرائیلی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اعتراف کیا ہے کہ ان کا ملک جنگی جرائم اور انسانیت کے قتل عام میں ملوث ممالک کو اسلحہ فروخت کرتا رہا ہے مگر تل ابیب ان ملکوں کے ساتھ اسلحہ کے لین دین کو سامنے لانے کی پالیسی سے گزیر کرتا رہا ہے۔
‘ہارٹز’ اخبار کے تجزیہ نگار ‘عاموس ھرئیل’ نے جمعہ کے روز اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اسرائیلی وزارت دفاع کے عہدیدار نے کہا کہ جنگی جرائم اور اپنے شہریوں کے خلاف طاقت استعمال کرنے والےملکوں کو اسلحہ کی خرید وفروخت ظاہر نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس حوالے سے معلومات شیئر کی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں سپریم کورٹ کو اس حوالے سے بتانا پڑا ہے تاہم پبلک میں ہم اس طرح کے معاہدوں کی تصدیق یا تردید نہیں کرتے۔
اسرائیلی محکمہ دفاع کے عہدیدار کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اسلحہ کی خرید وفروخت کے حوالے سے سنگین جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ صہیونی ریسات خفیہ طور پر ان ملکوں کو بھی اسلحہ فروخت کرتی ہے جو اپنے شہریوں کے قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست اسلحہ کی ڈیلنگ کے حوالے سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اسرائیلی ساختہ اسلحہ اور ہتھیار دنیا کے بعض ملکوں کی فوجیں اوردہشت گرد گروپ انسانوں کے قتل عام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی کے مطابق اسرائیل ایسے 8 ملکوں کو اسلحہ فروخت کرتا ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا کسی مانیٹرنگ اور چھان پھٹک کے بغیر مشکوک دفاعی معاہدے کرنا شرمناک ہے۔اسرائیل مشکوک دفاعی ڈیلیں کر کے اپنا کردارمزید مشکوک بنا رہا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل پر الزام عاید کیا جاتا ہے کہ وہ برما جیسے جنگی جرائم میں ملوث ملکوں کو بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود فروخت کرتا رہا ہے۔