جمعه 02/می/2025

نہر البارد کیمپ کی خانما بربادی کے 12 سال، زخم آج بھی تازہ ہیں!

منگل 21-مئی-2019

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کا ایک بڑا کیمپ 12 سال سے مسلسل تباہی اور بربادی کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کیمپ کے باشندے طرح طرح کی اقتصادی اور سماجی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مکانات اور گھروں کی تعمیر میں رکاوٹیں ایک الگ اور خوفناک مسئلہ ہے۔ آج سے بارہ سال پہلے نہر البارد پر مسلط کی گئی جنگ میں کیمپ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور رہائشی مکانات اور فلیٹس ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے۔

جغرافیائی محل وقوع

نہر البارد پناہ گزین کیمپ لبنان کی شمالی ساحلی شاہراہ پر طرابلس شہر میں 16 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ کیمپ سنہ 1949ء میں ریڈ کراس نے فلسطینی پناہ گزینوں کو ٹھہرانے کے لیے قائم کیا۔ یہاں پر شمالی فلسطین اور بحیرہ کے علاقے سے آنے والے فلسطینی پناہ گزین عارضی طور پر آباد کیے گئے۔ سنہ 1950ء کو اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم کردہ ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونروا’ نے اس کا انتظام سنبھالا اور اسے عکار کے علاقے میں لبنان میں اقتصادی مرکز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ مئی 2007ء کو ایک سو دن تک جاری رہنے والی لبنان اسرائیل جنگ میں اس کیمپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جب اور وہ معاشی ترقی کی علامت قرار دیا جانے والا پناہ گزین کیمپ زبوں حالی اور تباہی سے دوچار کر دیا گیا۔ جنگ نے کیمپ میں موجود 45 ہزار فلسطینیوں کو ایک بار پھر نقل مکانی اور ایک نئی ھجرت پر مجبور کر دیا۔

مکمل تباہی

تین ماہ تک نہر البارد پناہ گزین کیمپ کی ناکہ بندی جاری رہنے کے ساتھ ساتھ کیمپ پر بھاری توپ خانے اور جنگی طیاروں سے حملے کیے جاتے رہے۔ جنگ میں کیمپ کے 95 فی صد مکانات اور بنیادی ڈھانچہ تباہ کردیا گیا۔ کیمپ میں مکانات کے رہائش کے قابل نہ رہنے کے باعث فلسطینی پناہ گزین پڑوسی کیمپ البداوی کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

بارہ سال سے نہر البارد پناہ گزین کیمپ کے فلسطینی مکینوں کی مشکلات ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ کیمپ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ نہر البارد پناہ گزین کیمپ میں تعمیر نو کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے اور کسی طرف سے تعمیر کے لیے کوئی فنڈنگ نہیں مل رہی ہے۔

اس سے قبل ‘اونروا’ فلسطینی پناہ گزینوں کو رہائش الائونس کے طور پر 200 ڈالر دیتی رہی ہے مگر ریلیف ایجنسی کو بھی مالی بحران کا سامنا ہے اور اس نے رہائش الائونس کم کر کے 150 ڈالر کر دیے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنی طرف سے 100 ڈالر کے مساوی رقم خود سے ادا کرنا پڑتی ہے۔

یہ کیمپ مقامی اور فلسطینی تاجروں کے لیے بھی بند ہے اور اسے فوجی علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ ان پابندیوں نے جہاں تعمیراتی شعبے اور ہائوسنگ کا بحران پیدا کیا ہے وہیں صحت اور صفئی کا بھی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ کسی وقت اس کیمپ میں طبی سہولیات 100 فی صد تھیں مگر اب زیادہ سے زیادہ 70 فی صد ہیں۔

تعمیر اور بحالی کے مطالبہ

لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے رہ نما رافت مرہ نے کہا کہ نہر البارد پناہ گزین کیمپ کے فلسطینی باشندوں کو ایک ایسی جنگ کا خمیازہ بھگتنا پڑا جس کا فیصلہ انہوں نے نہیں کیا تھا۔ وہ نہ تو اس جنگ میں شامل تھے اور نہ ہی کوئی کردار ادا کیا مگر وہ سب سے زیاہ متاثر ہوئے۔

مرکز اطلاعات فسطین سے بات کرتے ہوئے رافت مرہ کا کہنا تھا کہ جنگ نے پورے کیمپ کے تمام پناہ گزینوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ تمام گھروں کی تباہی کے باعث 45 ہزار فلسطینی گھروں سے بے دخل کر دیے گئے۔

حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ کیمپ کے بیشتر فلسطینی پناہ گزین ابھی تک بے گھر ہیں اور ان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ انہیں بہ یک وقت صحت، تعلیم، ماحول او سماجی نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی