وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں کیخلاف امریکہ، اسرائیل، بھارت کا گٹھ جوڑ ہوچکا ہے، ماضی کی طرح خطے میں دوبارہ یہ گٹھ ناکام ہوگا، پاکستان کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرنے پر بھارتی جارحیت کی مخالفت کیسے کر سکیں گے، امریکہ نے فلسطین پر ہمیشہ قراردادوں اور پرامن اقدامات کو سبوتاژ کیا، یرو شلم میں اسرائیلی دارالحکومت عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پاکستان، کشمیر، روہینگیا پارلیمانی فورم اور فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس چیئرمین قائمہ کمیٹی خارجہ امور سینیٹر مشاہد حسین سید کی صدارت میں ہوئی۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر ہندوستان کی پالیسی فلسطین پر اسرئیلی پالیسی کی عکاس ہے ۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ نے ہمیشہ فلسطین پر قراردادو ں کو سبوتاژ کیا اور عالمی برادری کے اتفاق رائے کو نقصان پہنچایا ، عالمی اتفاق رائے تھا کہ اس مسئلے کو قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے گا مگر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ نے ناجائز طور پر اپنا سفارتخانہ یروشلم میں قائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ آزادی کی تحریکوں کیخلاف ٹرائیکا قائم ہوچکا ہے، مسلمانوں کا خون بہایا گیا ہے، امریکہ دولت سے ہر ایک کو نہیں خرید سکتا، ٹرمپ آزادی کی تحریکوں سے آگاہ نہیں ہے وہ اس سے آگاہی کرتے ہوئے سبق سیکھے ایران کو بھی دھمکیاں دی تھیں۔ بدقسمتی سے مسلم امہ کے مسائل پر او آئی سی غیر متعلق ہو کر رہ گئی ہے۔ او آئی سی کا مطلب مسلم ممالک کے درمیان باہمی تعاون ہے جبکہ اس کے دروازے غیر مسلم ممالک بھارت اور امریکہ کیلئے کھولے جارہے ہیں۔
کانفرنس میں فلسطین فاونڈیشن کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت سرکاری سطح پر یوم القدس منانے کا اعلان کرے۔ فلسطین کے حق واپسی کو حکومت پاکستان سپورٹ کرے۔ واضح طور پر سرکاری اعلان کیا جائے کہ مسئلہ فلسطین پر قائد اعظم کا فرمان ہمارے لئے مشل راہ ہے۔
چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے کہا کہ اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدر آمد کرانے میں ناکام رہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی درندنگی، بربریت، وحشت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور دہشت گردی بھارت کی ریاستی پالیسی بن گئی ہے، مسئلہ کشمیر کے دیرینہ موقف پر قائم ہیں او آئی سی نے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
فلسطین سفارتکار نادر کمال نے کہا کہ ہمیں عالمی برادری کی نا انصافی کا سامنا ہے، فلسطینیوں کو ہر قسم کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ عالمی برادری کا رویہ بھی افسوسناک اور غیر منصفانہ ہے، ہمارے ہر قسم کے حقوق کو نظر انداز کیا جارہا ہے، ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ فلسطینی سرزمین برائے فروخت نہیں ہے، طاقتور ممالک ہمارے حقوق کا احترام کریں، ہمیں جارحیت کا سامنا ہے، اسرائیلی دارالحکومت کے حوالے سے کوئی ملک امریکہ کا ساتھ نہ دے وہاں سفارتخانہ کیوں منتقل کیا ہے ہمارے دکھ درد میں اضافہ کیا جارہا ہے، یہ اقدامات ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے، فلسطین اور کشمیر کے تنازعات سے عالمی امن وابستہ ہے۔
سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو فلسطین کے مسئلے سے باہم جوڑ کر اس کو کشمیر کے لئے اپنے بیانیے کے طور پر استعمال کیا لیکن کشمیر پالیسی کو مس ہینڈل کرنے کی وجہ سے فلسطینی عوام کے کاز کو بھی نقصان پہنچایا۔ فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو پاکستان نے اپنی غلط پالیسیوں سے نقصان پہنچایا اور کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو دنیا اب سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ ہم نے شاید کشمیر کے مسئلے سے زیادہ جہادی افراد پر توجہ دی کیونکہ خود پاکستان کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت کمزور ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ اسرائیل میں نیتن یاہو پانچویں مرتبہ انتخابات میں منتخب ہوئے اور انہوں نے انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ غرب اردن میں یہودی بستسیوں کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔ امریکہ کا بحری بیڑہ خلیج میں موجود ہے اور ایران کو ڈرا رہا ہے اور عرب اور اسرائیل اردن کو دبائو میں لانا چاہتے ہیں کہ وہ نقل مکانی کرنے والوں کو پناہ دے۔ یہ تمام پیشرفت اس سال یوم القدس کو زیادہ اہم بنا دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد فلسطین کی ریاست کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے پہلے دن ہی سے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے اور قائداعظم نے 1948ء میں فلسطینیوں کی قربانیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔ پاکستان نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کا نمائندہ 1974ء میں اوآئی سی کی کانفرنس میں تسلیم کیا تھا اور اقوام متحدہ میں فلسطین کا جھنڈا لہرایا گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خارجہ امور سینٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ قائد اعظم نے برطانوی وزیر اعظم کو فلسطین کے موضوع پر خط لکھا تھا۔ ہم نے پاکستانی ایئر فورس اور پائیلٹ کی مدد سے فلسطینیوں کو شام کے محاذ پر مدد کی۔کشمیر ی جلد آزادی کا سورج دیکھیں گئے ۔ہماری قربانیاں ضائع نہیں ہونگی۔ سینٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ حریت پسند برہان وانی کی قربانی ضرور رنگ لائے گی۔ روہنگیا کے مظلوم بچے مدد کے لئے پکار رہے ہیں ہمیں انکی آواز پر لبیک کہنا چاہیئے۔ کانفرنس سے سینیٹر عبدالقیوم اورسینیٹر افراسیاب خٹک نے بھی خطاب کیا۔