برطانیہ میں ایک فلاحی تنظیم ‘ویلکم فنڈ’ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال سانپ کے ڈسنے سے ایک لاکھ 20 ہزار اموات ہوتی ہیں۔ اگر چہ دنیا بھر میں سانپ کے ڈسے جانے کے بعد استعمال کی جانے والی ادویات موجود ہیں مگر برطانوی تنظیم زیادہ فعال دوائی کی تیاری میں سرگرم ہے۔
امریکا کے لیور پول میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈیوڈ لالو کا کہنا ہے کہ سانپ کے ڈسے جانے کا علاج آج سے ایک سو سال متعارف کرایا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ سانپ کے ڈسے جانے کے لیے تیار کردہ ادویات غیر فعال اور ناکافی ہیں۔ اس میدان میں مزید تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے مگر فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ کام تعطل کا شکار ہے۔ فعال دوائی نہ ہونے کے باعث ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
سانپوں کے ڈسے جانے کے ماہر اور ویلکم فنڈ کے رُکن نے فیلپ پرائس نے کہا کہ سانپ کے ڈسے جانے کے باعث ہر سال ایک لاکھ 20 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر افریقا کے غریب ممالک، ایشیا، جنوبی امریکا اور دوسرے ملکوں میں سانپ کے ڈسے جانے سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال سانپ کے ڈسنے سے 4 لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو اپنے جسمانی اعضاء سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔