موسم گرما کے آتے ہی فلسطین میں انواع واقسام کے سانپ اور اژدھے زمین سے باہر نکل آتے ہیں۔ فلسطین میں ویسے تو سانپوں کی ان گنت اقسام پائی جاتی ہیں مگر ان میں ایک سانپ کا نام فلسطین کے نام سے منسوب ہے اور اسے انگریزی میں "Palestinian Viper” کے جانا جاتا ہے۔ تاہم اس لا طینی نام "Daboia palaestinae” ہے۔
جیسے گرمی کا موسم شروع ہوتا ہے تو فلسطین وائپر کے زمین سے باہر نکلنے اور شہریوں کی طرف سے اس کے مارے جانے کی خبریں بھی آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ جس بڑی تعداد میں اس سانپ کا قتل عام دیکھنے میں آیا ہے وہ اس کی نسل کی بقاء کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
‘فلسطینی وائپر’ کو ارض اسرائیل کا سانپ بھی کہا جانے لگا ہے۔ ایک مقامی شہری علی مرعی جو مرج ابن عامر کے کھیتوں میں کاشت کاری کرتا ہے، کا کہنا ہے کہ دو سال قبل فلسطین وائپر نے اس کے ایک دوست کو ڈس لیا تھا۔ یہ بہت خطرناک اور جان لیوا سانپ ہے اور دیگر سانپوں کی نسبت اس کے حوالے سے فلسطینی ایک فوبیا کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے ڈسنے سے متاثر ہونے والا شخص انتہائی کم وقت میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ اگر سانپ کا زہر کم کرنے کے لیے فوری تریاق مہیا نہ کیا جائے تو اس سانپ کی زہر تیزی کے ساتھ پورے جسم میں پھیل جاتی ہے۔
اگرچہ فلسطینیوں کو اس خطرناک سانپ سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی مگر ماہرین حیوانان اور تحفظ حیوانات کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہےکہ زیادہ تعداد میں ان سانپوں کا مارا جانا ان کی نسل ختم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
نسل کی بقاء کو درپیش خطرہ
فلسطین میں بری حیات کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے ڈائریکٹر عماد الاطرش نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ایام میں فلسطینیوں کو سانپ فوبیا ہوچکا ہے۔ بڑی تعداد میں فلسطینی سانپ مارے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین وائپر انتہائی زہریلا سانپ ہے مگر اس کی تعداد کم ہے۔ اس کی نسل کی بقاء کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ سانپ اس وقت اپنے ہدف پر حملہ کرتا ہے جب وہ خود کو خطرے میں محسوس کرے۔ اس اعتبار سے اس سانپ کو بزدل بھی سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین سانپ ہماری قومی شناخت کا حصہ ہے مگر اس کی شناخت کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس سانپ کے قتل عام کو روک کر اس کی نسل کو بچایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین سانپ کے متاثرین کی تعداد کم ہے۔ حالیہ عرصے کے دوران اس سانپ کے ڈسے جانے کے واقعات کم ہوئے ہیں اور اس سانپ کے ڈسنے سے کوئی موت نہیں ہوئی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ مذکورہ زہریلا سانپ وادی اردن میں بہ کثرت پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اردنی وزارت زراعت نے بھی اس سانپ کو مارنے کی مہم شروع کی تھی۔
’37 اقسام میں انتہائی خطرناک’
ماہر امور حیوانات ڈاکٹر برھان علی نے ہمارے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی وائپر کا ڈنگ انتہائی خطرناک اور مہلک ہے۔ فلسطینی اسپتالوں میں اس کا تریاق محدود مقدار میں پایا جاتا ہے مگر یہ بہت مہنگا علاج ہے۔ اس سانپ کے ڈسے کو ہزاروں علاج کے لیے ہزاروں ڈالرز درکار ہیں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطین وائپر کی زہر فلسطینی اسپتالوں کو سپلائی کرنے کی مخالفت کی جاتی تھی۔
البتہ اس کی زیادہ مقدار بلاد شام میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ فلسطین میں پائی جانی والی جڑی بوٹیوں میں بھی اس کا اعلاج ہے۔ جہاں تک فلسطین وائپر کا تعلق ہے تو اس کی لمبائی 70 سینٹی میٹر سے 120 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر گہرا زرد ہوتے ہوئے سرمئی ہوتا جاتا ہے۔ اس سانپ کا سر تکون یعنی تین کونوں والا ہوتا ہے۔ یہ واضحرہے کہ یہ سانپ صرف خطرے کی صورت میں حملہ کرتا ہے۔
اس وقت فلسطین میں 37 اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں جن میں سے یہ انتہائی زہریلا سمجھا جاتا ہے۔