چهارشنبه 30/آوریل/2025

شام میں فاقہ کش فلسطینی پناہ گزینوں کا ماہ صیام کیسے گذرا!

پیر 3-جون-2019

ماہ صیام آتے پوری دنیا میں مساجد آباد ہوجاتی ہیں۔ایسے گئے گذرے مسلمان جو پورا سال مسجد کا منہ نہیں دیکھتے وہ بھی با جماعت نمازوں کی ادائی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں مگر شام میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کی غربت اور پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ انہیں سحری اور افطاری میں مناسب کھانا اور عید پر بچوں کو ڈھنگ کے کپڑے تک میسر نہیں۔ حتیٰ کہ عارضی پناہ گزین کیمپوں میں ماہ صیام کے دوران عبادت کے لیے مساجد ہیں اورنہ دیگر سہولیات میسر ہیں۔

حال ہی میں ‘قدس پریس’ کی ٹیم نے شمالی شام میں فلسطینی پناہ گزین کیموں کا دورہ کیا اور ان کے احوال جاننے کی کوشش کی۔

فلسطینی پناہ گزینوں کو مساجد کی عدم موجودگی کی شکایت کرتے پایا گیا۔

انفرادی کوششیں

 

شمالی شام میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں قدس پریس کی ٹیم کی ملاقات ابو فراس نامی ایک فلسطینی شہری سے ہوئی۔ ابو فراس ایک پنسار کی دکان چلاتے ہیں۔ قدس پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں‌نے کہاکہ ماہ صیام کے آخری عشرے میں ہماری پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے پاس عبادت اور لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے عبادت کی خاطر مساجد نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ایک دوست میسور الحال کے ساتھ مل کر شہریوں کے قرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک دوسرے فلسطینی شہری عمر جن کا تعلق دمشق کے خان دنون کیمپ سے ہے نے بتایاکہ وہ اپنے بعض دوستوں کے ساتھ مل کر کیمپ میں موجود غریب لوگوں‌کے لیے کھانا بناتے ہیں۔ کھانے کے اخراجات وہ باری باری اپنی جیپ سے ادا کرتے ہیں۔

قدس پریس سےبات کرتے ہوئے عمر نے کہاکہ ہم نے چند دوستوں‌کے ساتھ مل کر ایک فنڈ قائم کیا ہے۔ اس فنڈ کے تحت ہم کیمپ کے ضرورت مندوں کے لیے چندہ جمع کرتےہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینی اور شامی پناہ گزینوں میں کوئی فرق نہیں‌ کرتے مگر پناہ گزین کیمپوں کے حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہیں کہ انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

ایک سوال کے جواب میں عمر نے کہا کہ پناہ گزین کیمپ کے مکینوں کے پاس پانی اور نمک کے علاوہ اور کوئی خاص چیز نہیں ہوتی۔ وہ اسی سے افطاری اور اسی سے سحری کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ریلیف فنڈ کے ذریعےپناہ گزینوں کی کسی حد تک ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔

عید اور قرضوں کا بوجھ

ایک مقامی فلسطینی سماجی کارکن ابراہیم الشھابی نے بتایا کہ غربت کے باعث شہری رمضان المبارک کے پہلے 20 دنوں میں قرض لے کرختم کردیتے ہیں اور آخری 10 ایام انتہائی مشکل سے گذرتے ہیں۔

قدس پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں‌نے کہا کہ پناہ گزین حیران و پریشان ہیں کہ وہ مہینا کیسے گذاریں گے اور قرضوں کےبوجھ سے کیسے نجات پائیں گے۔ وہ کب اپنے بچوں کو حقیقی خوشی دے سکیں گے۔ اگروہ عہد پر مزید قرض لیتے ہیں تو آنے والے دونوں میں انہیں اور بھی مشکلا پیش آسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کو خوراک فراہم نہ کر پانے والے والدین کی تمنا ہے کہ ان کے لیے عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک ہی بہتر ہے۔ وہ رمضان المبارک میں ایک وقت کے کھانے پر اکتفا کرتے ہیں جب کہ عام دنوں میں دن کو مختلف اوقات میں بچوں‌کوکھانا دینا پڑتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی